حیدرآباد
میرے پیارے ہم وطنو،
جمہوریت کے سب سے بڑے تہوار کا ایک سنگ میل آج یکم جون کو مکمل ہو رہا ہے۔ کنیا کماری میں تین دن کے روحانی سفر کے بعد، میں ابھی دہلی کے لیے ہوائی جہاز میں سوار ہوا ہوں. کاشی اور دیگر کئی سیٹوں پر ووٹنگ ہو رہی ہے۔ بہت سارے تجربات ہیں، بہت سارے احساسات ہیں۔ میں اپنے اندر لامحدود توانائی کا بہاؤ محسوس کررہا ہوں۔
درحقیقت 2024 کے اس الیکشن میں کئی خوش گوار اتفاقات سامنے آئے ہیں۔ امرت کال کے اس پہلے لوک سبھا انتخاب میں، میں نے میرٹھ سے مہم کا آغاز کیا، جو 1857 کی پہلی جنگ آزادی کی جائے تحریک ہے۔ ماں بھارتی کی پریکرما کے دوران اس الیکشن کا میرا آخری عوامی جلسہ پنجاب کے ہوشیار پور میں ہوا۔ سنت روی داس جی کی مقدس سرزمین، ہمارے گروؤں کی زمین پنجاب میں آخری جلسہ منعقد کرنے کا اعزاز بھی بہت خاص ہے۔ اس کے بعد مجھے کنیا کماری میں بھارت ماتا کے قدموں میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ ان ابتدائی لمحات میں میرے ذہن میں انتخابات کا شور گونج رہا تھا۔ جلسوں اور روڈ شوز میں نظر آنے والے ان گنت چہرے میری آنکھوں کے سامنے آ رہے تھے۔ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی بے پناہ محبت کی وہ لہر، ان کا آشیرواد۔ ان کی آنکھوں میں میرے لیے وہ بھروسہ، وہ پیار۔ میں سب کچھ اپنے اندر سمو رہا تھا۔ میری آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ میں خالی پن میں جا رہا تھا، دھیان میں داخل ہو رہا تھا۔
چند لمحوں میں سیاسی بحثیں، حملے اور جوابی حملے. الزامات کی آوازیں اور الفاظ، یہ سب خود بخود ختم ہوتے چلے گئے۔ میرے ذہن میں لاتعلقی کا احساس مزید شدید ہو گیا۔ میرا دماغ بیرونی دنیا سے بالکل الگ ہوگیا۔
اتنی بڑی ذمہ داریوں کے درمیان ایسی سادھنا مشکل ہے، لیکن کنیا کماری کی سرزمین اور سوامی وویکانند کی ترغیب نے اسے آسان بنا دیا۔ میں یہاں ایم پی کے طور پر اپنا انتخاب اپنے کاشی کے ووٹروں کے قدموں میں چھوڑ کر آیا تھا۔
میں ایشور کا بھی شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے پیدائش سے ہی یہ سنسکار دیے۔ میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ سوامی وویکانند جی نے اس مقام پر سادھنا کرتے ہوئے کیا تجربہ کیا ہوگا! میری سادھنا کا کچھ حصہ اسی طرح کے خیالات کے بہاؤ میں بہہ گیا۔
اس لاتعلقی کے درمیان، امن اور خاموشی کے درمیان، میرے ذہن میں بھارت کے روشن مستقبل کے لیے، بھارت کے مقاصد کے لیے خیالات مسلسل اُمنڈ رہے تھے۔ کنیا کماری کے اُگتے ہوئے سورج نے میرے خیالات کو نئی بلندیاں دیں، سمندر کی وسعت نے میرے خیالات کو وسعت دی اور اُفق کے پھیلاؤ نے کائنات کی گہرائیوں میں سمائی ہوئی وحدت نے مجھے ایک ہونے کا مسلسل احساس دیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ہمالیہ کی گود میں کئی دہائیوں پہلے کیے گئے غور و فکر اور تجربات دوبارہ زندہ ہو رہے ہوں۔
ساتھیو،
کنیا کماری کی یہ جگہ ہمیشہ میرے دل کے بہت قریب رہی ہے۔ کنیا کماری میں وویکانند راک میموریل کی تعمیر جناب ایکناتھ رانڈے جی نے کرائی تھی۔ مجھے ایکناتھ جی کے ساتھ کافی سفر کرنے کا موقع ملا تھا۔ اس یادگار کی تعمیر کے دوران کچھ وقت کنیا کماری میں رہنا اور وہاں آنا جانا فطری طور پر ہوتا تھا۔
کشمیر سے کنیا کماری. یہ ہماری مشترکہ شناختیں ہیں جو ملک کے ہر فرد کے دل میں سمائی ہوئی ہیں۔ یہ وہ شکتی پیٹھ ہے جہاں ماں شکتی نے کنیا کماری کی شکل میں اَوتار لیا تھا۔ اس جنوبی سرے پر ماں شکتی نے ان بھگوان شِو کے لیے تپسیا کی اور انتظار کیا جو بھارت کے شمالی سرے کے ہمالیہ پر براجمان رہے تھے۔
کنیا کماری سنگموں کے سنگم کی سرزمین ہے۔ ہمارے ملک کی مقدس ندیاں الگ الگ سمندروں میں جاکر ملتی ہیں اور یہاں ان سمندروں کا سنگم ہوتا ہے۔ اور یہاں ایک اور عظیم سنگم نظر آتا ہے، ’بھارت کا نظریاتی سنگم‘
وویکانند راک میموریل کے ساتھ ہی، یہاں پر سنت تھروولوور کا عظیم مجسمہ، گاندھی منڈپم اور کامراجر منی منڈپم ہیں۔ عظیم ہیروز کے خیالات کے یہ دھارے یہاں قومی سوچ کا سنگم بناتے ہیں۔ اس سے قوم کی تعمیر کے لیے عظیم تحریکات کا جنم ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو جو بھارت کے ایک قوم ہونے اور ملک کے اتحاد پر شک کرتے ہیں، کنیا کماری کی یہ سرزمین اتحاد کا انمٹ پیغام دیتی ہے۔
کنیا کماری میں سنت تھروولوور کا عظیم مجسمہ، سمندر سے ماں بھارتی کے پھیلاؤ کو دیکھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کی بناوٹ ’تھروکورل‘ تمل ادب کے جواہرات سے جڑے تاج کی مانند ہے۔ اس میں زندگی کے ہر پہلو کو بیان کیا گیا ہے، جو ہمیں اپنے اور قوم کے لیے اپنا بہترین نتیجہ دینے کی تحریک دیتا ہے۔ ایسی عظیم شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنا میرے لیے انتہائی خوشی کی بات ہے۔
ساتھیو،
سوامی وویکانند جی نے کہا تھا - ہر قوم کے پاس پہنچانے کے لیے ایک پیغام ہے، پورا کرنے کے لیے ایک مشن ہے، پہنچنے کے لیے ایک منزل ہے۔
بھارت اس جذبے کے ساتھ ہزاروں سالوں سے ایک بامعنی مقصد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ بھارت ہزاروں سالوں سے نظریات کی تحقیق کا مرکز رہا ہے۔ ہم نے جو کچھ کمایا ہے اسے کبھی بھی اپنا ذاتی سرمایہ نہیں سمجھا اور اسے کبھی معاشی یا مادی معیارات پر نہیں تولا۔
بھارت کی فلاح سے دنیا کی فلاح، بھارت کی ترقی سے دنیا کی ترقی، اس کی ایک بڑی مثال ہماری تحریک آزادی بھی ہے۔ بھارت 15 اگست 1947 کو آزاد ہوا۔ اس وقت دنیا کے کئی ممالک غلامی میں تھے۔ ان ممالک کو بھی بھارت کی آزادی سے تحریک اور طاقت ملی، انہوں نے آزادی حاصل کی۔ ابھی کورونا کے مشکل دور کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ جب غریب اور ترقی پذیر ممالک کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا، لیکن بھارت کی کامیاب کوششوں سے بہت سے ممالک کو حوصلہ اور تعاون بھی ملا۔
آج بھارت کا گورننس ماڈل دنیا کے کئی ممالک کے لیے ایک مثال بن گیا ہے۔ صرف 10 سالوں میں 25 کروڑ لوگوں کو غریبی سے نکالنا ایک مثال ہے۔ پیپل گڈ گورننس، اسپیریشنل ڈسٹرکٹ، اسپیریشنل بلاک جیسے نئے تجربات آج دنیا میں زیر بحث ہیں۔ غریبوں کو بااختیار بنانے سے لے کر آخری میل ڈیلیوری تک، معاشرے کے آخری صف میں کھڑے فرد کو ترجیح دینے کی ہماری کوششوں نے دنیا کو تحریک دی ہے۔ بھارت کی ڈیجیٹل انڈیا مہم آج پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہے کہ کس طرح ہم غریبوں کو بااختیار بنانے، شفافیت لانے اور انہیں ان کے حقوق دلانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کر سکتے ہیں۔ بھارت میں سستا ڈیٹا آج اطلاعات و خدمات تک غریبوں کی رسائی کو یقینی بناکر سماجی برابری کا وسیلہ بن رہا ہے۔ پوری دنیا ٹیکنالوجی کی اس جمہوریت کاری کو تحقیقی نقطہ نظر سے دیکھ رہی ہے اور بڑی عالمی تنظیمیں بہت سے ممالک کو ہمارے ماڈل سے سیکھنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔
آج بھارت کی ترقی اور بھارت کا عروج صرف بھارت کے لیے ہی بڑا موقع نہیں ہے۔ بلکہ یہ دنیا کے تمام ہم سفر ممالک کے لیے بھی ایک تاریخی موقع ہے۔ جی- 20 کی کامیابی کے بعد دنیا بھارت کے اس کردار کو زیادہ کھل کر قبول کر رہی ہے۔ آج بھارت کو گلوبل ساؤتھ کی ایک مضبوط اور اہم آواز کے طور پر قبول کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی پہل ہی افریقی یونین جی- 20 گروپ کا حصہ بنا۔ یہ سبھی افریقی ممالک کے مستقبل کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا ہے۔
ساتھیو،
نئے بھارت کی یہ شکل ہمیں فخر اور شان سے بھر دیتی ہے، لیکن ساتھ ہی یہ 140 کروڑ ہم وطنوں کو ان کے فرائض کا بھی احساس کراتی ہے۔ اب ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر ہمیں بڑی ذمہ داریوں اور بڑے اہداف کی طرف قدم بڑھانا ہو گا۔ ہمیں نئے خواب دیکھنے ہیں۔ اپنے خوابوں کو اپنی زندگی بنانا ہے، اور ان خوابوں کو جینا شروع کرنا ہے۔
ہمیں بھارت کی ترقی کو عالمی تناظر میں دیکھنا ہوگا، اور اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم بھارت کے باطن میں پوشیدہ صلاحیت کو سمجھیں۔ ہمیں بھارت کی طاقت کو قبول بھی کرنا ہوگا، انہیں مضبوط بھی کرنا ہوگا اور دنیا کے مفاد میں ان کا بھرپور استعمال بھی کروانا ہوگا۔ آج کے عالمی حالات میں، ایک نوجوان قوم کے طور پر بھارت کی صلاحیت ہمارے لیے ایک ایسا خوشگوار اتفاق اور موقع ہے جہاں سے ہمیں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا ہے۔
آج 21ویں صدی کی دنیا بڑی امیدوں کے ساتھ بھارت کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اور عالمی منظر نامے میں آگے بڑھنے کے لیے ہمیں بہت سی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ ہمیں اصلاحات کے حوالے سے اپنی روایتی سوچ کو بھی بدلنا ہوگا۔ بھارت اصلاحات کو صرف اقتصادی تبدیلیوں تک محدود نہیں رکھ سکتا ہے۔ ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح کی طرف بڑھنا ہوگا۔ ہماری اصلاحات بھی 2047 تک ترقی یافتہ بھارت کے عزائم کے مطابق ہونی چاہئیں۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اصلاحات کبھی بھی کسی ملک کے لیے یک رُخی عمل نہیں ہوسکتیں۔ اسی لیے، میں نے ملک کے لیے ریفارم، پَرفارم اور ٹرانسفارم کا وژن سامنے رکھا۔ اصلاحات کی ذمہ داری قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ اس کی بنیاد پر ہماری بیوروکریسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے اور پھر جب عوام اس سے جڑ جاتی ہے تو ہم تبدیلی ہوتی ہوئی دیکھتے ہیں۔
بھارت کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے ہمیں عمدگی کو اپنی بنیادی قدر بنانا ہوگا۔ ہمیں اسپیڈ، اسکیل، اسکوپ اور اسٹینڈرڈ، یعنی چاروں سمتوں میں تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ ہمیں مینوفیکچرنگ کے ساتھ ساتھ کوالٹی پر بھی زور دینا ہوگا، ہمیں زیرو ڈیفیکٹ- زیرو ایفیکٹ کے اصول کو اپنانا ہوگا۔
ساتھیو،
ہمیں ہر لمحہ اس بات پر فخر ہونا چاہئے کہ خدا نے ہمیں بھارت کی سرزمین میں جنم دیا ہے۔ خدا نے ہمیں بھارت کی خدمت کرنے اور اس کے بلندی کے سفر میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے منتخب کیا ہے۔
ہمیں قدیم اقدار کو جدید شکل میں اپناتے ہوئے اپنے ورثے کو جدید انداز میں نئی شکل دینا ہے۔
ہمیں بحیثیت قوم بھی اپنی فرسودہ سوچ اور عقائد پر نظر ثانی بھی کرنا ہوگی۔ ہمیں اپنے معاشرے کو پیشہ وارانہ مایوسیوں کے دباؤ سے آزاد کرنا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہے کہ منفی ذہنیت سے آزادی، کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے پہلی جڑی بوٹی ہے۔ کامیابی مثبت ذہنیت کی گود میں ہی پنپتی ہے۔
بھارت کی لامحدود اور لافانی طاقت پر میرا ایمان، عقیدت اور یقین بھی دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ میں نے پچھلے 10 سالوں میں بھارت کی اس صلاحیت کو زیادہ بڑھتے دیکھا ہے اور زیادہ محسوس کیا ہے۔
جس طرح ہم نے 20ویں صدی کی چوتھی- پانچویں دہائی کو اپنی آزادی کے لیے استعمال کیا ہے، اسی طرح ہمیں 21ویں صدی کے ان 25 سالوں میں ایک ترقی یافتہ بھارت کی بنیاد رکھنی ہے۔ جنگ آزادی کے دوران وطن عزیز کے لیے قربانیاں دینے کا وقت تھا۔ آج قربانی کا وقت نہیں بلکہ مسلسل تعاون کا وقت ہے۔
سوامی وویکانند نے 1897 میں کہا تھا کہ ہمیں اگلے 50 سال صرف قوم کے لیے وقف کرنے ہوں گے۔ ان کی اس اپیل کے ٹھیک 50 سال بعد، بھارت 1947 میں آزاد ہوگیا۔
آج ہمارے پاس ایک سنہرا موقع ہے۔ آیئے آئندہ 25 سال صرف قوم کے لیے وقف کریں۔ ہماری یہ کوششیں آنے والی نسلوں اور آنے والی صدیوں کے لیے نئے بھارت کی مضبوط بنیاد کے طور پر لازوال رہیں گی۔ میں ملک کی توانائی کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ ہدف اب دور نہیں ہے۔ آئیے، تیز قدموں سے چلیں۔ مل کر چلیں اور بھارت کو ترقی یافتہ بنائیں۔
یہ بھی پڑھیں: