حیدرآباد: ملک کے سابق صدر اور پوری دنیا میں میزائل مین کے نام سے مشہور ممتاز سائنسداں ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی آج نوویں برسی ہے۔ وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی یادیں اور خدمات ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کرتی رہیں گی۔
جی ہاں! میں بات کر رہا ہوں تمل ناڈو، رامیشورم کے چشم و چراغ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی۔ پورا نام ابوالفاخر زین العابدین عبدالکلام ہے۔ انہیں کون نہیں جانتا یا ان کی کہانیوں سے کون نہیں واقف ہے۔ گاؤں کا ایک ادنیٰ سا طالب علم جو ملک کے لئے ایک مثال پیش کر کے چلا گیا، جو بچپن سے ہی جاگتے ہوئے خواب دیکھتا تھا، نہ صرف دیکھتا تھا بلکہ ان میں جیتا بھی تھا۔ رحم دلی اور دیانت داری اپنی والدہ عائشہ سے اور اخلاق و کردار والد محترم زین العابدین سے سیکھا۔ ان کے والدین زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن والد اور والدہ کو سوسائٹی کے لوگ عزت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ والد کشتیاں بنا کر ان کو ملاحوں میں فروخت کرتے تھے۔
مالی حالت بہتر نہ ہونے پر عبدالکلام صاحب بچپن میں ہی املی کی بیج اکٹھا کر کے بیچتے تھے، تھوڑے بڑے ہوئے تو صبح شہر میں اخبار بیچنا شروع کر دیا تھا۔ دھیرے دھیرے گھر کی پریشانیاں کم ہوتی گئی تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتے گئے، اعلیٰ تعلیم کے لئے گھر میں پیسے نہ ہونے پر بڑی بہن نے اپنے زیور گروی رکھ کر کالج میں داخلہ دلایا۔
گویا یہ کہ پوری زندگی گٹھنائیوں و پریشانیوں سے دو چار تھی، پھر بھی ہار نہ مانا اپنے بلند عزم و حوصلے کے ساتھ ڈٹے رہے۔ دن گزرتے گئے اور پھر یہ کارنامہ انجام کر دیا، جو ملک کے لئے ایک عظیم کارنامہ تھا۔ ہندوستانی حکومت اور دیگر ملکوں کے حکومت نے مختلف اعزاز سے سرفراز کیا۔ ہندوستانی حکومت نے صدر جمہوریہ کے لئے بھی عبدالکلام صاحب کا انتخاب کیا۔ یہاں پر بھی آپ نے اپنی الگ پہچان چھوڑی جسے ملک ہمیشہ یاد کرتا رہے گا۔
کلام صاحب کو جوہری سائنس میں ان کی شراکت کے لئے بھارت رتن سے نوازا گیا ہے، سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کو آج ان کی برسی پر دنیا بھر میں انہیں خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ ایک نامور سائنسدان، ایک دور اندیشی سیاستدان ساتھ ہی ایک عظیم انسان بھی تھے۔
ڈاکٹر عبدالکلام نے مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے خلائی سائنس میں گریجویشن کیا اور اس کے بعد اس کرافٹ منصوبے پر کام کرنے والے دفاعی تحقیقاتی ادارے کو جوائن کیا جہاں بھارت کے پہلے سیٹلائٹ طیارے پر کام ہو رہا تھا۔ اس سیارچے کی لانچنگ میں ڈاکٹر عبد الکلام کی خدمات سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اس کے علاوہ پروجیکٹ ڈائیرکٹر کے طور پر انہوں نے پہلے سیٹلائٹ جہاز کی لانچنگ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
عبدالکلام 'ایئرو اسپیس ٹیکنالوجی' میں آنے کی وجہ اپنے پانچویں درجے کے استاذ سبرامنیم ایئر کو ایک اچھے اساتذہ کا درجہ دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ کہ انھوں نے کلاس میں پوچھا کہ چڑیا کیسے اڑتی ہے؟ کلاس کے کسی طالب علم نے جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد آئندہ روز سارے بچوں کو سمندر کے کنارے لے گئے۔ وہاں پرندے اڑ رہے تھے۔ کچھ سمندر کے کنارے اڑ رہے تھے تو کچھ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں انھوں نے ہمیں پرندوں کے اڑنے کی وجہ باالتفصیل بتائی اور ساتھ ہی پرندوں کے جسم کے ساخت بھی سمجھائی۔
ڈاکٹر عبدلکلام کہتے تھے کہ 'ان کے ذریعے بتائی گئی ساری باتیں میرے ذہن میں بیٹھ گئ اور مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ سمندر کے ساحل پر کھڑے ہیں اور اس واقعے نے مجھے زندگی کا ہدف متعین کرنے میں مدد کی۔ اس کے بعد میں نے طے کیا کہ پرواز کے حوالے سے ہی اپنا کیریئر بناؤں گا۔ میں نے بعد میں فزکس کی پڑھائی کی اور مدراس انجینئرنگ کالج سے ایرو ناٹیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔'
ڈاکٹر عبدالکلام نے سال 1974 میں بھارت کا پہلا ایٹم بم تجربہ کیا تھا، جس کے باعث انھیں 'میزائل مین' کے نام سے پوری دنیا میں شہرت ملی۔
سال 1992 سے 1999 تک عبدالکلام وزارت دفاع کے دفاعی صلاح کار کے طور پر کام کرتے رہے۔ اسی دوران اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں پوکھرن میں نیو کلیائی تجربے کیے اور بھارت نیوکلیائی اسلحہ بنانے والے ملک میں شامل ہوگیا۔ مرحوم عبدالکلام بھارتی حکومت کے سائنسی صلاح کار بھی رہے۔
سال 1982 میں عبدالکلام کو ڈی آر ڈی ایل(ڈیفنس ریسرچ ڈیولپمنٹ لیبارٹری) کا ڈائریکٹر بنایا گیا۔ اس دوران انا یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا تھا۔
انہوں نے اس وقت کے وزرات دفاع کے سائنسی صلاح کار ڈاکٹر وی ایس اروناچمل کے ساتھ مل کر 'انٹی گریڈ گائیڈیڈ' میزائل ڈیولپمنٹ پروگرام کا خاکہ تیار کیا اور ملکی میزائلوں کی ترقی کے لیے کلام کی صدارت میں ایک کمیٹی بنائی گئی۔
عبدالکلام کو بھارتی حکومت کی جانب سے 1981 میں آئی اے ایس کے ضمن میں پدم بھوشن اعزاز سے نوازا گیا جبکہ سنہ 1997 میں انہیں ملک کے سب سے بڑے شہری اعزاز بھارت رتن سے بھی نوازا گیا۔
سال 2002 میں 18 جولائی کو عبد الکلام کو 90 فیصد اکثریت سے بھارت کا صدر منتخب کیا گیا اور انہوں نے 25 جولائی کو اپنا عہدہ سنبھالا۔
ڈاکٹر عبدالکلام کے صدر منتخب ہونے کے بارے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں تھا، ووٹنگ محض ایک رسمی کارروائی تھی اور وہ ملک کے تیسرے مسلمان صدر منتخب ہوئے تھے۔ انہیں مرکزی اور ریاستی انتخابی حلقوں کے تقریباً پانچ ہزار اراکین نے منتخب کیا تھا۔
صدر جمہوریہ کے عہدے کے لیے ان کی نامزدگی اس وقت کی حکمراں جماعت این ڈی اے (قومی جمہوری اتحاد) کی حکومت نے کیا تھا جسے انڈین نیشنل کانگریس کی بھی حمایت حاصل تھی۔
صدر کے عہدے کے لیے نامزدگی پر ان کی مخالفت کرنے والوں میں اس وقت سب سے اہم جماعت بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی اور دیگر بائیں بازو کی ساتھی جماعتیں تھیں۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے اپنی جانب سے 87 سالہ لکشمی سہگل کا اندراج کیا تھا جو سبھاش چندر بوس کے ساتھ آزاد ہند فوج اور دوسری جنگ عظیم میں اپنی شراکت کے لیے معروف ہیں۔
سابق صدر جمہوریہ اور میزائل مین عبدالکلام نے اپنی ادبی و تصنیفی کاوشوں کو چار بہترین کتابوں میں پیش کیا ہے جو درج ذیل ہیں۔
پرواز (ونگس آف فائر کا اردو ترجمہ)
انڈیا 2020، اے وژن فار دی نیو ملینیم
مائی جرنی
اگنیٹیڈ مائنڈز، اَن ليشگ دا پاور ود ان انڈیا
اے پی جے عبدالکلام بھارت کے ایک ایسے سائنس داں تھے، جنہیں 30 یونیورسٹیوں اور اداروں سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں ملیں۔ یہ عظیم شخص شام کے وقت لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے 27 جولائی 2015 کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔