ETV Bharat / bharat

احتجاج کرنے والوں پر پولس کی اندھادھند فائرنگ ایک وحشیانہ کاروائی: مولانا ارشد مدنی

ہلدوانی میں پولس ایکشن کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہلدوانی میں جو کچھ ہوا وہ انتہائی افسوسناک ہے اور احتجاج کرنے والوں پر مذہب کی بنیاد پر پولس کی اندھادھند فائرنگ ایک وحشیانہ کاروائی ہے۔

Maulana Arshad Madani
احتجاج کرنے والوں پر پولس کی اندھادھند فائرنگ ایک وحشیانہ کاروائی: مولانا ارشد مدنی
author img

By UNI (United News of India)

Published : Feb 11, 2024, 6:54 PM IST

Updated : Feb 11, 2024, 9:19 PM IST

نئی دہلی: ہلدوانی میں پولس ایکشن کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کا جو نمائندہ وفد متاثرہ علاقوں کا جائزہ لینے کے لئے آج ہلدوانی کے دورہ پر گیا تھا، اس نے جو رپورٹ دی ہے وہ انتہائی روح فرساں ہے اور یہ بات بالکل آئینہ کی طرح صاف ہو کر سامنے آگئی ہے کہ پولس اور انتظامیہ کا رول بہت خراب رہاہے۔

رپورٹ کے مطابق پولیس ظلم و زیادتی کی تمام حدوں کو توڑتے ہوئے لوگوں کو گرفتار کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ دروازہ توڑ کر اور جبرا گھروں میں گھس کر مرد و خواتین کو زد و کوب بھی کر رہی ہے۔ پولس کی زیادتی اور خوف کی وجہ سے اب تک ہزاروں لوگ فساد زدہ علاقے سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یہ ظلم کی انتہا ہے اور کوئی بھی انصاف پسند معاشرہ اس کو برداشت نہیں کر سکتا۔

ہم نے اس سلسلے میں اتراکھنڈ کے ڈی جی پی کو کل ایک خط لکھ کر مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں فوری توجہ دیں اور پولیس بے گناہ شہریوں پر جو زیادتیاں کر رہی ہے، اسے ایسا کرنے سے نہ صرف روکا جائے بلکہ گرفتاریوں کا جو مذموم سلسلہ شروع ہوا ہے، اسے بھی فورا بند کیا جانا چاہئے اور اس پورے واقعے کی منصفانہ جانچ بھی ہونی چاہئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولس اور انتظامیہ نے اگر ایماندارانہ طریقہ سے اس معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہوتی تو شاید اس سانحہ کو رونما ہونے سے روکا جا سکتا تھا، لیکن ایسا کرنے کی جگہ پولس نے طاقت کے استعمال کو ترجیح دی، جس سے صورتحال مزید بگڑ گئی اور پانچ بے گناہ افراد کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔

مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ جب معاملہ عدالت میں تھا تو انتظامیہ کو مسجد اور مدرسے کو منہدم کرنے کی اتنی جلدی کیوں تھی؟ میری معلومات کے مطابق اس کیس کی سماعت 8 فروری کو ہائی کورٹ میں گیارہ بجے ہوئی تھی اور کورٹ نے 14فروری کو اس کی دوبارہ سماعت کی تاریخ مقرر کی تھی۔

انتظامیہ کو جب تک انتظار کرنا چاہئے تھا، لیکن اسی دن یعنی 8 فروری کو شام تقریبا پانچ بجے مسجد اور مدرسہ کو منہدم کرنے کے لئے نگر نگم اور انتظامیہ کے لوگ پہنچ گئے اور عجلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس سے یہ افسوسناک حقیقت بہر حال اجاگر ہوگئی کہ انتظامیہ کی نیت صاف نہیں تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں جو معلومات فراہم کی گئی ہے کہ یہ زمین 1937 میں برطانوی دور حکومت میں ایک شخص کو لیز پر دی گئی تھی، جس پر مسلمان آباد ہوئے اور مسجد اور مدرسہ بھی تعمیر کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ پولس کاروائی پر اب یہ دلیل دی جارہی ہے کہ مقامی لوگ تشدد پر آمادہ تھے اور اپنے گھروں کی چھتوں سے سنگ باری کررہے تھے، جس پر قابو پانے کے لئے پولس کو فائرنگ کرنی پڑی۔

یہ بھی مشتہر کیا جارہا ہے کہ پولس پر منصوبہ بند طریقہ سے حملہ کیا گیا، ظاہر ہے کہ اس طرح کی باتیں اب معاملہ کی لیپاپوتی کرنے اور فائرنگ کو درست ثابت کرنے کے لئے کی جارہی ہے۔ مقامی لوگ تو انتظامیہ کے خلاف احتجاج کررہے تھے اور یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ آئین نے ملک کے ہر شہری کو احتجاج کا حق دیا ہے، بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ نوبت آئی کیوں؟

انتظامیہ کا فرض تھا کہ اس طرح کی کاروائی سے پہلے وہ مقامی لوگوں سے بات چیت کرتی انہیں اعتماد میں لیتی اور حقیقی صورتحال سے آگاہ کرتی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، اچانک نگرنگم کے لوگ جب بلڈوزر لیکر پہنچے تو مقامی لوگوں نے احتجاج کیا، جس کو دبانے کے لئے پولس نے لاٹھی چارج کیا اور فائرنگ شروع کردی۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف پولس نظم ونسق قائم کرنے کی جگہ ایک فریق بن جاتی ہے، لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو وہ ایسا نہیں کرتی۔

مولانا مدنی نے کہا کہ انتظامیہ کے پاس احتجاج کو دیکھنے کے دو پیمانہ ہیں، مسلم اقلیت احتجاج کرے تو ناقابل معافی جرم، لیکن اگر اکثریت کے لوگ احتجاج کریں اور سڑکوں پر اتر کر پرتشدد کاروائیاں انجام دیں اور پوری پوری ریل گاڑیاں اور اسٹیشن پھونک ڈالیں تو انہیں تتر بتر کرنے کے لئے ہلکا لاٹھی چارج بھی نہیں کیا جاتا۔ انتظامیہ کا مظاہرہ اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق افسوسناک ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں فوج میں ٹھیکہ کے نوکری کے خلاف ہونے والا پرتشدد احتجاج اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، احتجاجیوں نے جگہ جگہ ٹرینوں میں آگ لگائی، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا پولس پر پتھر بازی کی تو وہی پولس جو مسلمانوں کے خلاف تمام حدیں توڑ دیتی ہے خاموش تماشائی بنی رہی۔

اس پرتشدد احتجاج کو لیکر جو لوگ گرفتار کئے گئے تھے ان کے خلاف ایسی ہلکی دفعات لگائی تھیں کہ تھانہ سے ہی ان کی ضمانت ہو گئی تھی۔ اس کے سیکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ہم اس کے خلاف ایک مدت سے آواز اٹھا رہے ہیں لیکن افسوس کی ہر معاملہ کو مذہبی عینک سے دیکھا جانے لگا ہے۔ (یو این آئی)

نئی دہلی: ہلدوانی میں پولس ایکشن کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کا جو نمائندہ وفد متاثرہ علاقوں کا جائزہ لینے کے لئے آج ہلدوانی کے دورہ پر گیا تھا، اس نے جو رپورٹ دی ہے وہ انتہائی روح فرساں ہے اور یہ بات بالکل آئینہ کی طرح صاف ہو کر سامنے آگئی ہے کہ پولس اور انتظامیہ کا رول بہت خراب رہاہے۔

رپورٹ کے مطابق پولیس ظلم و زیادتی کی تمام حدوں کو توڑتے ہوئے لوگوں کو گرفتار کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ دروازہ توڑ کر اور جبرا گھروں میں گھس کر مرد و خواتین کو زد و کوب بھی کر رہی ہے۔ پولس کی زیادتی اور خوف کی وجہ سے اب تک ہزاروں لوگ فساد زدہ علاقے سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یہ ظلم کی انتہا ہے اور کوئی بھی انصاف پسند معاشرہ اس کو برداشت نہیں کر سکتا۔

ہم نے اس سلسلے میں اتراکھنڈ کے ڈی جی پی کو کل ایک خط لکھ کر مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں فوری توجہ دیں اور پولیس بے گناہ شہریوں پر جو زیادتیاں کر رہی ہے، اسے ایسا کرنے سے نہ صرف روکا جائے بلکہ گرفتاریوں کا جو مذموم سلسلہ شروع ہوا ہے، اسے بھی فورا بند کیا جانا چاہئے اور اس پورے واقعے کی منصفانہ جانچ بھی ہونی چاہئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولس اور انتظامیہ نے اگر ایماندارانہ طریقہ سے اس معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہوتی تو شاید اس سانحہ کو رونما ہونے سے روکا جا سکتا تھا، لیکن ایسا کرنے کی جگہ پولس نے طاقت کے استعمال کو ترجیح دی، جس سے صورتحال مزید بگڑ گئی اور پانچ بے گناہ افراد کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔

مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ جب معاملہ عدالت میں تھا تو انتظامیہ کو مسجد اور مدرسے کو منہدم کرنے کی اتنی جلدی کیوں تھی؟ میری معلومات کے مطابق اس کیس کی سماعت 8 فروری کو ہائی کورٹ میں گیارہ بجے ہوئی تھی اور کورٹ نے 14فروری کو اس کی دوبارہ سماعت کی تاریخ مقرر کی تھی۔

انتظامیہ کو جب تک انتظار کرنا چاہئے تھا، لیکن اسی دن یعنی 8 فروری کو شام تقریبا پانچ بجے مسجد اور مدرسہ کو منہدم کرنے کے لئے نگر نگم اور انتظامیہ کے لوگ پہنچ گئے اور عجلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس سے یہ افسوسناک حقیقت بہر حال اجاگر ہوگئی کہ انتظامیہ کی نیت صاف نہیں تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں جو معلومات فراہم کی گئی ہے کہ یہ زمین 1937 میں برطانوی دور حکومت میں ایک شخص کو لیز پر دی گئی تھی، جس پر مسلمان آباد ہوئے اور مسجد اور مدرسہ بھی تعمیر کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ پولس کاروائی پر اب یہ دلیل دی جارہی ہے کہ مقامی لوگ تشدد پر آمادہ تھے اور اپنے گھروں کی چھتوں سے سنگ باری کررہے تھے، جس پر قابو پانے کے لئے پولس کو فائرنگ کرنی پڑی۔

یہ بھی مشتہر کیا جارہا ہے کہ پولس پر منصوبہ بند طریقہ سے حملہ کیا گیا، ظاہر ہے کہ اس طرح کی باتیں اب معاملہ کی لیپاپوتی کرنے اور فائرنگ کو درست ثابت کرنے کے لئے کی جارہی ہے۔ مقامی لوگ تو انتظامیہ کے خلاف احتجاج کررہے تھے اور یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ آئین نے ملک کے ہر شہری کو احتجاج کا حق دیا ہے، بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ نوبت آئی کیوں؟

انتظامیہ کا فرض تھا کہ اس طرح کی کاروائی سے پہلے وہ مقامی لوگوں سے بات چیت کرتی انہیں اعتماد میں لیتی اور حقیقی صورتحال سے آگاہ کرتی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، اچانک نگرنگم کے لوگ جب بلڈوزر لیکر پہنچے تو مقامی لوگوں نے احتجاج کیا، جس کو دبانے کے لئے پولس نے لاٹھی چارج کیا اور فائرنگ شروع کردی۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف پولس نظم ونسق قائم کرنے کی جگہ ایک فریق بن جاتی ہے، لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو وہ ایسا نہیں کرتی۔

مولانا مدنی نے کہا کہ انتظامیہ کے پاس احتجاج کو دیکھنے کے دو پیمانہ ہیں، مسلم اقلیت احتجاج کرے تو ناقابل معافی جرم، لیکن اگر اکثریت کے لوگ احتجاج کریں اور سڑکوں پر اتر کر پرتشدد کاروائیاں انجام دیں اور پوری پوری ریل گاڑیاں اور اسٹیشن پھونک ڈالیں تو انہیں تتر بتر کرنے کے لئے ہلکا لاٹھی چارج بھی نہیں کیا جاتا۔ انتظامیہ کا مظاہرہ اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق افسوسناک ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں فوج میں ٹھیکہ کے نوکری کے خلاف ہونے والا پرتشدد احتجاج اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، احتجاجیوں نے جگہ جگہ ٹرینوں میں آگ لگائی، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا پولس پر پتھر بازی کی تو وہی پولس جو مسلمانوں کے خلاف تمام حدیں توڑ دیتی ہے خاموش تماشائی بنی رہی۔

اس پرتشدد احتجاج کو لیکر جو لوگ گرفتار کئے گئے تھے ان کے خلاف ایسی ہلکی دفعات لگائی تھیں کہ تھانہ سے ہی ان کی ضمانت ہو گئی تھی۔ اس کے سیکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ہم اس کے خلاف ایک مدت سے آواز اٹھا رہے ہیں لیکن افسوس کی ہر معاملہ کو مذہبی عینک سے دیکھا جانے لگا ہے۔ (یو این آئی)

Last Updated : Feb 11, 2024, 9:19 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.