اترکاشی،اتراکھنڈ: مسجد تنازع کو لے کر اترکاشی کے رام لیلا میدان میں آج مہاپنچایت بلائی گئی ہے۔ قیاس آرائیاں ہیں کہ حیدرآباد کے گوشا محل سیٹ سے بی جے پی ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ بھی مہاپنچایت میں حصہ لے سکتے ہیں۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یہ مسجد ان کے آباؤ اجداد نے بنوائی تھی اور وہ برسوں سے یہاں مقیم ہیں۔ لیکن مسجد کے خلاف ماحول بنا کر شہر کا ماحول خراب کیا جا رہا ہے۔
#WATCH | Nilesh Anand Bharne, IG, Uttarakhand Police says, " various organisations had taken permission to hold a jansabha...police headquarters have provided them with all the security arrangements they had sought. 3 companies of psc have been given by police headquarters...in… https://t.co/6tRMk65oH1 pic.twitter.com/9mFOu2LlQ5
— ANI (@ANI) December 1, 2024
دیو بھومی وچار منچ کے بینر تلے مہاپنچایت منعقد کی جائے گی۔ طے شدہ شیڈول کے مطابق، رکن اسمبلی مہاپنچایت میں شرکت کے لیے اتوار کو رام لیلا میدان پہنچیں گے۔ مہاپنچایت میں حصہ لینے کے بعد وہ ٹھیک 4 بجے دون کے لیے روانہ ہونے والے ہیں۔ مہاپنچایت میں ان کی شرکت کو لے کر دیو بھومی وچار منچ کے لوگوں میں جوش و خروش کا ماحول ہے۔
اترکاشی مسجد تنازعہ کو لے کر 24 اکتوبر کو ہنگامہ ہوا تھا۔ سنیکت سناتن دھرم رکھشک دل کی طرف سے مسجد کے خلاف ایک عوامی احتجاجی ریلی نکالی گئی تھی۔ جس کے بعد مشتعل مظاہرین کو مسجد کی طرف جانے والی سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کر کے روکا گیا جس کے بعد پولیس اہلکاروں سے ان کی جھڑپ ہوئی۔ اس دوران ڈیڈ لاک ڈھائی گھنٹے تک جاری رہا۔ اسی دوران کہیں سے پولس کی طرف بوتل پھینکی گئی جس کے بعد پولیس نے لاٹھی چارج کرکے بھیڑ کو منتشر کر دیا۔ اس دوران پولیس فورس پر شدید پتھراؤ کیا گیا۔
پتھراؤ اور لاٹھی چارج میں مظاہرین اور پولیس اہلکاروں سمیت کل 27 افراد زخمی ہوئے۔ جس کی وجہ سے شہر میں بدستور کشیدگی کی فضا برقرار ہے۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے علاقے میں امن بحال کرنے کے لیے دفعہ 163 نافذ کر دی۔ جس کے بعد پولیس نے 208 افراد کے خلاف مختلف دفعات لگائیں۔ جس میں تین افراد کو جیل بھیج دیا گیا۔
مخصوص برادری کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو مہاپنچایت کے انعقاد کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ، یہ مسجد ہمارے آباؤ اجداد نے 1969 میں بنوائی تھی۔ اب اچانک مسجد کے خلاف ماحول بنا کر شہر کا ماحول خراب کیا جا رہا ہے، سوشل میڈیا پر بھی گمراہ کن جانکاری پھیلائی جا رہی ہیں، جس پر انتظامیہ کو روک لگانی چاہیے۔