لکھنؤ: کیفی اعظمی نے صف اول کا شاعر نہ ہونے کے باوجود کیسے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ اس سلسلہ میں پروفیسر علی احمد فاطمی نے بتایا کہ کیفی اعظمی ایسے شاعر تھے جنہوں نے ایام طفولیت سے ہی شعر کہنا شروع کر دیے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کیفی اعظمی کا داخلہ لکھنؤ کے سلطان المدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کرایا گیا تھا۔ لیکن جب مدرسے کا نظام انہیں پسند نہیں آیا اور ان کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہوا تو انہوں نے مدرسے کے گیٹ پہ ہی مخالفت شروع کی اور غزل کہنا شروع کردیا۔، انہوں نے کہا کہ کیفی کو انقلابی شاعر وترقی پسند شاعر کہنا ناانصافی ہوگی۔ کیفی نے اپنے اطراف ہو رہے حوادثات، ظلم و زیادتی، غربت اور بے بسی جیسے موضوعات پر شعر کہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیفی اعظمی کا شعری مجموعہ بہت ہی کم صفحات پر مشتمل ہے۔ لیکن انہوں نے جو بھی اشعار کہے ہیں وہ بہت ہی معنی خیز اور اہمیت کے حامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
کیفی اعظمی ایک تخلیقی نثر نگارتھے: پروفیسر شارب ردولوی
انہوں نے مزید کہا کہ کیفی اعظمی کو ترقی پسند شعراء میں صف اول کا شاعر تو نہیں کہہ سکتے ہیں، لیکن کیفی تو کیفی تھے۔ جب لکھنؤ میں ان کے ساتھ ایک رومانوی واقعہ پیش آیا تو اس کے بعد وہ کانپور چلے گئے۔ کانپور میں بھی انہوں نے ایک عرصہ گزارا اور پھر انہیں ممبئی کی طرف کوچ کرنا پڑا۔ ممبئی میں بالی ووڈ فلموں کے لیے انہوں نے کئی نغمے لکھے۔ جس سے انہیں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ کیفی کے تعلق سے یہ کہا جاتا تھا کہ وہ غزل اپنے بڑے بھائی سے لکھواتے تھے۔ ایک بار انہیں بطور چیلنج کے ایک مصرعہ دیا گیا۔ جس کے بعد کیفی اعظمی نے کچھ وقت غور و فکر کیا اور اس کے بعد مکمل غزل لکھ دی۔ جس کے بعد سے یہ بھرم ٹوٹ گیا کہ کیفی کسی اور سے اشعار لکھواتے ہیں۔
وہ نظریاتی طور پر بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سے متاثر تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ہم عصر ساتھیوں نے بھی اس جانب ان کی توجہ دلائی۔ جس میں علی سردار جعفری کافی اہم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کیفی ہمیشہ اپنے گاؤں اور اپنی وطن کی مٹی سے وابستہ رہے۔ انہوں نے کئی شہروں کا سفر کیا اور طویل عرصہ تک قیام بھی کیا۔ لیکن اعظم گڑھ کے مجواں سے وہ ہمیشہ وابستہ رہے۔ اخیر وقت میں انہوں نے اپنے گاؤں کا رخ کیا اور وہاں اسکول بنوایا اور کئی اہم کام کیے اور ہمیشہ اپنے نام کے ساتھ اعظم گڑھ کا نام بھی ضم کیا یعنی کیفی اعظمی لکھا۔