ETV Bharat / bharat

فرمان الٰہی: وہ بدنصیب جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی، سورہ بقرۃ کی آیات 6 تا 10 کا مطالعہ - Ayat 6 to 10 of Surah Baqarah

آج 'فرمان الٰہی' میں ہم سورہ 'البقرۃ' کی آیات (6-10) کو تراجم اور تفاسیر کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ Farman e Ilahi

وہ بدنصیب جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی
وہ بدنصیب جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی (ETV Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jun 4, 2024, 6:55 AM IST

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ ءأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (6)

ترجمہ: بیشک جو لوگ کافر ہو چکے ہیں برابر ہیں ان کے حق میں خواہ آپ ان کو ڈرائیں یہ نہ ڈرائیں وہ ایمان نہ لاویں گے۔(2)

2 ۔ اس آیت میں سب کافروں کا بیان نہیں بلکہ خاص ان کافروں کا ذکر ہے جن کی نسبت خدا کو معلوم ہے کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوگا اور اس آیت سے یہ غرض نہیں کہ ان کو عذاب الہی سے ڈرانے اور احکام سنانے کی ضرورت نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ ان کے ایمان لانے کی فکر نہ کریں اور ان کے ایمان نہ لانے مغموم نہ ہوں انکے ایمان لانے کی امید نہیں۔

خَتَمَ ٱللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰٓ أَبْصَـٰرِهِمْ غِشَـٰوَةٌۭ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌۭ (7)

ترجمہ: بند لگادیا ہے اللہ تعالی نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے سزا بڑی ہے۔(3)

3 ۔ انہوں نے شرارت و عناد کر کے باختیار خود اپنی استعداد برباد کرلی ہے سو اس تباہی و استعداد کا سبب و فاعل تو وہ خود ہی ہیں مگر چونکہ بندوں کے جمیع افعال کا خالق اللہ سبحانہ و تعالی ہے اس لیے اس آیت میں اپنے خالق ہونے کا بیان فرمادیا کہ جب وہ تباہی استعداد کے فاعل ہوئے اور اس کو بقصد خود اختیار کرنا چاہا تو ہم نے بھی وہ بد استعدادی کی کیفیت ان کے قلوب وغیرہ میں پیدا کر دی بند لگانے سے اسی بد استعدادی کا پیدا کرنا مراد ہے ان کا یہ فعل اس ختم کا سبب ہو ختم الہی اس فعل کا سبب نہیں ہوا۔

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُوْلُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ(8)

ترجمہ: اور ان لوگوں میں سے بعضے ایسے بھی ہے جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اللہ پر اور آخری دن پر اور (حالانکہ ) وہ بالکل ایمان والے نہیں۔ (8)

يُخْدِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (9)

ترجمہ: چالبازی کرتے ہیں اللہ سے اور ان لوگوں سے جو ایمان لاچکے ہیں (یعنی محض چالبازی کی راہ سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں) اور وہ واقعی میں کسی کے ساتھ بھی چالبازی نہیں کرتے بجز اپنی ذات کے اور وہ اس کا شعور نہیں رکھتے (4)

4 ۔ یعنی اس چالبازی کا انجام بد خود ان ہی کو بھگتنا پڑے گا۔

فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (10)

ترجمہ: ان کے دلوں میں (بڑا) مرض ہے سو اور بھی بڑھا دیا اللہ تعالی نے ان کو مرض ( 5 ) اور ان کیلئے سزائے دردناک ہے اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔

5 - مرج ہیں ان کی بداعتقادی وحسد اور ہر وقت کا اندیشہ و خلجان سب کچھ آگیا چونکہ اسلام کو روزانہ رونق ہو جاتی تھی اس لیے ان کے دلوں میں ساتھ ساتھ یہ امراض ترقی پاتے جاتے تھے۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی)

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ ءأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ(6)

ترجمہ: جن لوگوں نے ان باتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، و ان کے لئے یکساں ہے، خواہ تم انہیں خبردار کرویا نہ کرو، بہر حال وہ ماننے والے نہیں

یعنی وہ چھ کی چھ شرطیں، جن کا ذکر اوپر ہوا ہے، پوری نہ کیں، اور ان سب کو، یا ان میں سے کسی ایک کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَ عَلَى سَمْعِهِمْ وَ عَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (7)

ترجمہ: اللہ نے اُن کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے مہر لگا دی تھی، اس لیے انہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے ان بنیادی امور کو رد کر دیا جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، اور اپنے لیے قرآن کے پیش کردہ راستہ کے خلاف دوسرا راستہ پسند کر لیا، تو اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی۔ اس مہر لگنے کی کیفیت کا تجربہ ہر اس شخص کو ہوگا جسے کبھی تبلیغ کا اتفاق ہوا ہو۔ جب کوئی شخص آپ کے پیش کردہ طریقے کو جانچنے کے بعد ایک دفعہ رد کر دیتا ہے، تو اس کا ذہن کچھ اس طرح مخالف سمت میں چل پڑتا ہے کہ پھر آپ کی کوئی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی، آپ کی دعوت کے لیے اس کے کان بہرے، اور آپ کے طریقے کی خوبیوں کے لیے اس کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں، اور صریح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ فی الواقع اس کے دل پر مہر لگی ہوئی ہے۔

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ (8)

ترجمہ: بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں، حالانکہ در حقیقت وہ مومن نہیں ہیں۔

يُخْدِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (9)

ترجمہ: وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔

یعنی وہ اپنے آپ کو اس اس غلط فہمی میں مبتلا کر رہے ہیں کہ ان کی یہ منافقانہ روش ان کے لیے مفید ہوگی، حالانکہ دراصل یہ ان کو دنیا میں بھی نقصان پہنچائے گی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں ایک منافق چند روز کے لیے لوگوں کو دھوکا دے سکتا تا ہے مگر ہمیشہ اس کا دھوکا نہیں چل سکتا۔ آخر کار اس کی منافقت کا راز فاش ہو کر رہتا ہے۔ اور پھر معاشرے میں اس کی کوئی ساتھ باقی نہیں رہتی۔ رہی آخرت تو وہاں ایمان کا زبانی دعویٰ کوئی قیمت نہیں رکھتا اگر عمل اس کے خلاف ہو۔

فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (10)

ترجمہ: ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا 12 دیا، اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں، اس کی پاداش میں ان کے لئے درد ناک سزا ہے

بیماری سے مراد منافقت کی بیماری ہے۔ اور اللہ کے اس بیماری میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ منافقین کو ان کے نفاق کی سزا فوراً نہیں دیتا بلکہ انہیں ڈھیل دیتا ہے اور اس ڈھیل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافق لوگ اپنی چالوں کو بظاہر کامیاب ہوتے دیکھ کر اور زیادہ مکمل منافق بنتے چلے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فرمان الٰہی: اللہ تعالیٰ کی نظر میں نزول قرآن کا مقصد اور کامیابی کا پیمانہ

فرمان الٰہی: 'سورۃ البقرۃ' کا نام گائے پر کیوں؟ مفسرین کی نظر میں اس سورت کی اہمیت و فضیلت

فرمان الٰہی: سورہ فاتحہ کی اہمیت، معنیٰ و مفہوم

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ ءأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (6)

ترجمہ: بیشک جو لوگ کافر ہو چکے ہیں برابر ہیں ان کے حق میں خواہ آپ ان کو ڈرائیں یہ نہ ڈرائیں وہ ایمان نہ لاویں گے۔(2)

2 ۔ اس آیت میں سب کافروں کا بیان نہیں بلکہ خاص ان کافروں کا ذکر ہے جن کی نسبت خدا کو معلوم ہے کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوگا اور اس آیت سے یہ غرض نہیں کہ ان کو عذاب الہی سے ڈرانے اور احکام سنانے کی ضرورت نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ ان کے ایمان لانے کی فکر نہ کریں اور ان کے ایمان نہ لانے مغموم نہ ہوں انکے ایمان لانے کی امید نہیں۔

خَتَمَ ٱللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰٓ أَبْصَـٰرِهِمْ غِشَـٰوَةٌۭ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌۭ (7)

ترجمہ: بند لگادیا ہے اللہ تعالی نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے سزا بڑی ہے۔(3)

3 ۔ انہوں نے شرارت و عناد کر کے باختیار خود اپنی استعداد برباد کرلی ہے سو اس تباہی و استعداد کا سبب و فاعل تو وہ خود ہی ہیں مگر چونکہ بندوں کے جمیع افعال کا خالق اللہ سبحانہ و تعالی ہے اس لیے اس آیت میں اپنے خالق ہونے کا بیان فرمادیا کہ جب وہ تباہی استعداد کے فاعل ہوئے اور اس کو بقصد خود اختیار کرنا چاہا تو ہم نے بھی وہ بد استعدادی کی کیفیت ان کے قلوب وغیرہ میں پیدا کر دی بند لگانے سے اسی بد استعدادی کا پیدا کرنا مراد ہے ان کا یہ فعل اس ختم کا سبب ہو ختم الہی اس فعل کا سبب نہیں ہوا۔

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُوْلُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ(8)

ترجمہ: اور ان لوگوں میں سے بعضے ایسے بھی ہے جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اللہ پر اور آخری دن پر اور (حالانکہ ) وہ بالکل ایمان والے نہیں۔ (8)

يُخْدِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (9)

ترجمہ: چالبازی کرتے ہیں اللہ سے اور ان لوگوں سے جو ایمان لاچکے ہیں (یعنی محض چالبازی کی راہ سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں) اور وہ واقعی میں کسی کے ساتھ بھی چالبازی نہیں کرتے بجز اپنی ذات کے اور وہ اس کا شعور نہیں رکھتے (4)

4 ۔ یعنی اس چالبازی کا انجام بد خود ان ہی کو بھگتنا پڑے گا۔

فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (10)

ترجمہ: ان کے دلوں میں (بڑا) مرض ہے سو اور بھی بڑھا دیا اللہ تعالی نے ان کو مرض ( 5 ) اور ان کیلئے سزائے دردناک ہے اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔

5 - مرج ہیں ان کی بداعتقادی وحسد اور ہر وقت کا اندیشہ و خلجان سب کچھ آگیا چونکہ اسلام کو روزانہ رونق ہو جاتی تھی اس لیے ان کے دلوں میں ساتھ ساتھ یہ امراض ترقی پاتے جاتے تھے۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی)

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ ءأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ(6)

ترجمہ: جن لوگوں نے ان باتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، و ان کے لئے یکساں ہے، خواہ تم انہیں خبردار کرویا نہ کرو، بہر حال وہ ماننے والے نہیں

یعنی وہ چھ کی چھ شرطیں، جن کا ذکر اوپر ہوا ہے، پوری نہ کیں، اور ان سب کو، یا ان میں سے کسی ایک کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَ عَلَى سَمْعِهِمْ وَ عَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (7)

ترجمہ: اللہ نے اُن کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے مہر لگا دی تھی، اس لیے انہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے ان بنیادی امور کو رد کر دیا جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، اور اپنے لیے قرآن کے پیش کردہ راستہ کے خلاف دوسرا راستہ پسند کر لیا، تو اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی۔ اس مہر لگنے کی کیفیت کا تجربہ ہر اس شخص کو ہوگا جسے کبھی تبلیغ کا اتفاق ہوا ہو۔ جب کوئی شخص آپ کے پیش کردہ طریقے کو جانچنے کے بعد ایک دفعہ رد کر دیتا ہے، تو اس کا ذہن کچھ اس طرح مخالف سمت میں چل پڑتا ہے کہ پھر آپ کی کوئی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی، آپ کی دعوت کے لیے اس کے کان بہرے، اور آپ کے طریقے کی خوبیوں کے لیے اس کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں، اور صریح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ فی الواقع اس کے دل پر مہر لگی ہوئی ہے۔

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ (8)

ترجمہ: بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں، حالانکہ در حقیقت وہ مومن نہیں ہیں۔

يُخْدِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (9)

ترجمہ: وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔

یعنی وہ اپنے آپ کو اس اس غلط فہمی میں مبتلا کر رہے ہیں کہ ان کی یہ منافقانہ روش ان کے لیے مفید ہوگی، حالانکہ دراصل یہ ان کو دنیا میں بھی نقصان پہنچائے گی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں ایک منافق چند روز کے لیے لوگوں کو دھوکا دے سکتا تا ہے مگر ہمیشہ اس کا دھوکا نہیں چل سکتا۔ آخر کار اس کی منافقت کا راز فاش ہو کر رہتا ہے۔ اور پھر معاشرے میں اس کی کوئی ساتھ باقی نہیں رہتی۔ رہی آخرت تو وہاں ایمان کا زبانی دعویٰ کوئی قیمت نہیں رکھتا اگر عمل اس کے خلاف ہو۔

فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (10)

ترجمہ: ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا 12 دیا، اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں، اس کی پاداش میں ان کے لئے درد ناک سزا ہے

بیماری سے مراد منافقت کی بیماری ہے۔ اور اللہ کے اس بیماری میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ منافقین کو ان کے نفاق کی سزا فوراً نہیں دیتا بلکہ انہیں ڈھیل دیتا ہے اور اس ڈھیل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافق لوگ اپنی چالوں کو بظاہر کامیاب ہوتے دیکھ کر اور زیادہ مکمل منافق بنتے چلے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فرمان الٰہی: اللہ تعالیٰ کی نظر میں نزول قرآن کا مقصد اور کامیابی کا پیمانہ

فرمان الٰہی: 'سورۃ البقرۃ' کا نام گائے پر کیوں؟ مفسرین کی نظر میں اس سورت کی اہمیت و فضیلت

فرمان الٰہی: سورہ فاتحہ کی اہمیت، معنیٰ و مفہوم

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.