بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)
بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ
يَأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (21)
ترجمہ: اے لوگو عبادت اختیار کرو اپنے (اس) پروردگار کی جس نے تم کو پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں عجب نہیں کہ تم (دوزخ سے) بچ جاؤ۔ ( 3 )
3 - شاہی محاورہ میں " عجب نہیں “ کا لفظ وعدہ کے موقع پر بولا جاتا ہے۔
ٱلَّذِي جَعَلَ لَكُمُ ٱلۡأَرۡضَ فِرَٰشٗا وَٱلسَّمَآءَ بِنَآءٗ وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءٗ فَأَخۡرَجَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَٰتِ رِزۡقٗا لَّكُمۡۖ فَلَا تَجۡعَلُواْ لِلَّهِ أَندَادٗا وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (22)
ترجمہ: وہ ذات پاک ایسی ہے جس نے بنایا تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت اور برسایا آسمان سے پانی پھر پردہ عدم سے) نکالا بذریعہ اس (پانی) کے پھلوں کی غذا کو تم لوگوں کے واسطے پس اب تم مت ٹھیراؤ اللہ پاک کے مقابل اور تم جانتے بوجھتے ہو۔ ( 4 )
4- یعنی اس بات کو جانتے ہو کہ ان تصرفات کا بجز خدا تعالی کے کوئی کرنے والا نہیں۔ تو اس صورت میں کب زیبا ہے کہ خدا کے مقابلہ میں دوسروں کو معبود بناو۔
وَإِن كُنتُمۡ فِي رَيۡبٖ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلَىٰ عَبۡدِنَا فَأۡتُواْ بِسُورَةٖ مِّن مِّثۡلِهِۦ وَٱدۡعُواْ شُهَدَآءَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمۡ صَٰدِقِينَ (23)
ترجمہ: اور اگر تم کچھ خلجان میں ہو اس کتاب کی نسبت جو ہم نے نازل فرمائی ہے اپنے بندہ (خاص) پر تو (اچھا) پھر تم بنا لاؤ ایک محدود ٹکڑا جو اس کا ہم پلہ ہو ( 5 ) اور بلا لو اپنے حمایتیوں کو جو خدا سے الگ ( تجویز کر رہے) ہیں اگر تم سچے ہو۔ ( 6 )
5 - رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیشمار معجزے عطا ہوئے جن میں سے سب سے بڑا معجزہ قرآن شریف ہے کہ اثبات نبوت کی بڑی دلیل ہے، اس کے معجزہ ہونے میں مخالفین کو یہ شبہ تھا کہ شاید اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود تصنیف کر لیا کرتے ہوں۔ تو اس صورت میں اس کا معجزہ ہونا محل کلام میں ہو گیا پس دلیل نبوت مشتبہ ہو گئی، اس لئے اللہ تعالی اس اشتباہ کو رفع فرماتے ہیں کہ تاکہ اس کا معجزہ ہونا ثابت ہو جائے پھر نبوت قطعی دلیل بن سکے۔
6 ۔ جب باوجود اس کے نہ بنا سکیں گے تو بشرط انصاف بلا تامل ثابت ہو جائے گا کلہ یہ معجزہ منجانب اللہ ہے اور بلا شبہ آپ پیغمبر ہیں اور یہی مقصود تھا۔
فَإِن لَّمۡ تَفۡعَلُواْ وَلَن تَفۡعَلُواْ فَٱتَّقُواْ ٱلنَّارَ ٱلَّتِي وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلۡحِجَارَةُۖ أُعِدَّتۡ لِلۡكَٰفِرِينَ (24)
ترجمہ: پھر اگر تم (یہ کام نہ کر سکے ( اور قیامت تک بھی) نہ کر سکو گے تو پھر ذرا بچتے رہیو دوزخ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں تیار ہوئی رکھی ہے کافروں کے واسطے۔ (7 )
7 ۔ یہ سن کر کیسا کچھ جوش و خروش اور پیچ و تاپ نہ آیا ہوگا۔ اور کوئی دقیقہ سعی کا کیوں اٹھا رکھا ہوگا ؟ پھر عاجز ہو کر اپنا سامنہ لیکر بیٹھ رہنا قطعی دلیل ہے کہ قرآن مجید معجزہ ہے۔
وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ أَنَّ لَهُمۡ جَنَّٰتٖ تَجۡرِي مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُۖ كُلَّمَا رُزِقُواْ مِنۡهَا مِن ثَمَرَةٖ رِّزۡقٗا قَالُواْ هَٰذَا ٱلَّذِي رُزِقۡنَا مِن قَبۡلُۖ وَأُتُواْ بِهِۦ مُتَشَٰبِهٗاۖ وَلَهُمۡ فِيهَآ أَزۡوَٰجٞ مُّطَهَّرَةٞۖ وَهُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ (25)
ترجمہ: اور خوشخبری سنا دیجیے آپ (اے پیغمبر) ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور کام کیے اچھے اس بات کی کہ بیشک ان کے واسطے بہشتیں ہیں کہ چلتی ہونگی انکے نیچے سے نہریں جب کبھی دیے جاویں گے وہ لوگ ان (بہشتوں میں سے کسی پھل کی غذا تو (ہر بار میں) یہی کہینگے یہ تو وہی ہے جو ہم کو ملا تھا اس سے پیشتر اور ملے گا بھی ان کو دونوں بار کا پھل) ملتا جلتا (8) اور ان کے واسطے ان (بہشتوں) میں بیبیاں ہونگی صاف پاک کی ہوئی اور وہ لوگ ان (بہشتوں میں ہمیشہ کو بسنے والے ہونگے۔
8 - دونوں بار کے پھلوں کی صورت ایک سی ہوگی جس سے وہ یوں سمجھیں گے کہ یہ پہلی ہی قسم کا پھل ہے مگر کھانے میں مزہ دوسرا ہوگا، جس سے خط و سرور مضاعف ہو جائے گا۔
- تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱعۡبُدُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِي خَلَقَكُمۡ وَٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ (21)
ترجمہ: لوگو، 21 بندگی اختیار کرو اپنے اُس رب کی جو تمھارا اور تم سے پہلے لوگ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالق ہے، تمھارے بچنے کی توقع اِسی 22 صورت سے ہو سکتی ہے۔
21- اگرچہ قرآن کی دعوت تمام انسانوں کے لیے عام ہے، مگر اس دعوت سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا لوگوں کی اپنی آمادگی پر اور اس آمادگی کے مطابق اللہ کی توفیق پر منحصر ہے۔ لہٰذا پہلے انسانوں کے درمیان فرق کر کے واضح کر دیا گیا کہ کس قسم کے لوگ اس کتاب کی رہنمائی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور کس قسم کے نہیں اٹھا سکتے۔ اس کے بعد اب تمام نوع انسانی کے سامنے وہ اصل بات پیش کی جاتی ہے، جس کی طرف بلانے کے لیے قرآن آیا ہے۔
22- یعنی دنیا میں غلط بینی و غلط کاری سے اور آخرت میں خدا کے عذاب سے بچنے کی توقع۔
ٱلَّذِي جَعَلَ لَكُمُ ٱلۡأَرۡضَ فِرَٰشٗا وَٱلسَّمَآءَ بِنَآءٗ وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءٗ فَأَخۡرَجَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَٰتِ رِزۡقٗا لَّكُمۡۖ فَلَا تَجۡعَلُواْ لِلَّهِ أَندَادٗا وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (22)
ترجمہ: وُہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی ،اُوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمھارے لیے رزق بہم پہنچایا۔پس تم جانتے ہو تو دُوسروں کو اللہ کا مدِّمقابِل نہ ٹھراوٴ۔
وَإِن كُنتُمۡ فِي رَيۡبٖ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلَىٰ عَبۡدِنَا فَأۡتُواْ بِسُورَةٖ مِّن مِّثۡلِهِۦ وَٱدۡعُواْ شُهَدَآءَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمۡ صَٰدِقِينَ (23)
ترجمہ: اور (23) اگر تمھیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے، یہ ہماری ہے یا نہیں، تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ، اپنے سارے ہم نواؤں کو بُلالو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو، مدد لے لو، اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر کے دکھاؤ۔
23- یعنی جب تم خود بھی اس بات کے قائل ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں، تو پھر تمہاری بندگی اسی کے لیے خاص ہونی چاہیے، دوسرا کون اس کا حق دار ہو سکتا ہے کہ تم اس کی بندگی بجا لاؤ ؟ دوسروں کو اللہ کا مد مقابل ٹھہرانے سے مراد یہ ہے کہ بندگی و عبادت کی مختلف اقسام میں سے کسی قسم کا رویہ خدا کے سوا دوسروں کے ساتھ برتا جائے۔ آگے چل کر خود قرآن ہی سے تفصیل کے ساتھ معلوم ہو جائے گا کہ عبادت کی وہ اقسام کون کون سی ہیں جنہیں صرف اللہ کے لیے مخصوص ہونا چاہیے اور جن میں دوسروں کو شریک ٹھہرانا وہ ” شرک “ ہے، جسے روکنے کے لیے قرآن آیا
فَإِن لَّمۡ تَفۡعَلُواْ وَلَن تَفۡعَلُواْ فَٱتَّقُواْ ٱلنَّارَ ٱلَّتِي وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلۡحِجَارَةُۖ أُعِدَّتۡ لِلۡكَٰفِرِينَ (24)
ترجمہ: لیکن (24) اگر تم نے ایسا نہ کیا، اور یقینًا کبھی نہیں کر سکتے ،تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر (25)، جومہیّاکی گئی ہے منکرینِ حق کے لیے۔
24- اس سے پہلے لگے میں کئی بار یہ چیلنج دیا جا چکا تھا کہ اگر تم اس قرآن کو انسان کی تصنیف سمجھتے ہو، تو اس کے مانند کوئی کلام تصنیف کر کے دکھاؤ۔ اب مدینے پہنچ کر پھر اس کا اعادہ کیا جارہا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۃ یونس ، آیت ٤٨ و سوره هود، آیت ۱۳ - بنی اسرائیل، آیت ۸۸ - الطور، آیت ٢٣ - ٣٤ )
25- اس میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ وہاں صرف تم ہی دوزخ کا ایندھن نہ بنو گے، بلکہ تمہارے وہ بت بھی وہاں تمہارے ساتھ ہی موجود ہوں گے جنہیں تم نے اپنا معبود و مسجود بنا
وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ أَنَّ لَهُمۡ جَنَّٰتٖ تَجۡرِي مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُۖ كُلَّمَا رُزِقُواْ مِنۡهَا مِن ثَمَرَةٖ رِّزۡقٗا قَالُواْ هَٰذَا ٱلَّذِي رُزِقۡنَا مِن قَبۡلُۖ وَأُتُواْ بِهِۦ مُتَشَٰبِهٗاۖ وَلَهُمۡ فِيهَآ أَزۡوَٰجٞ مُّطَهَّرَةٞۖ وَهُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ (25
ترجمہ: اور اے پیغمبر،جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور ﴿اس کے مطابق﴾ اپنے عمل درست کر لیں،انہیں خوشخبری دے دو کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ان باغوں کے پھل صورت میں دُنیا کے پھلوں سے مِلتے جُلتے ہونگے۔ جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائےگا، تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دُنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے۔ان (26) کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہونگی،اور (26) وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔
26- یعنی نرالے اور اجنبی پھل نہ ہوں گے، جن سے وہ نامانوس ہوں۔ شکل میں انہی پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے جن سے وہ دنیا میں آشنا تھے۔ البتہ لذت میں وہ ان سے بدرجہا زیادہ بڑھے ہوئے ہوں گے۔ دیکھنے میں مثلاً آم اور انار اور سنترے ہی ہوں گے۔ اہل جنت ہر پھل کو دیکھ کر پہچان لیں گے کہ یہ آم ہے اور یہ انار ہے اور یہ سنترا۔ مگر مزے میں دنیا کے آموں اور اناروں اور سنتروں کو ان سے کوئی نسبت نہ ہوگی۔
عربی متن میں ازدواج کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی ہیں ''جوڑے “۔ اور یہ لفظ شوہر اور بیوی دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ شوہر کے لیے بیوی ” زوج “ ہے اور بیوی کے لیے شوہر ” زوج “۔ مگر وہاں یہ ازدواج پاکیزگی کی صفت کے ساتھ ہوں گے۔ اگر دنیا میں کوئی مرد نیک ہے اور اس کی بیوی نیک نہیں ہے، تو آخرت میں ان کا رشتہ کٹ جائے وہ اس برے شوہر کی صحبت سے خلاصی پا جائے گی اور کوئی گا اور اس نیک مرد کو کوئی دوسری نیک بیوی دے دی جائے گی۔ اگر یہاں کوئی عورت نیک ہے اور اس کا شوہر بد، تو وہاں نیک مرد اس کا شریک زندگی بنادیا جائے گا۔ اور اگر یہاں کوئی شوہر اور بیوی دونوں نیک ہیں، تو وہاں ان کا یہی رشتہ ابدی و سرمدی ہو جائے گا۔
کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)
بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱعْبُدُوا۟ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ وَٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (21)
ترجمہ: اے لوگو! اپنے رب کو پوجو جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیا، یہ امید کرتے ہوئے، کہ تمہیں پرہیز گاری ملے-
ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ فِرَٰشًۭا وَٱلسَّمَآءَ بِنَآءًۭ وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۭ فَأَخْرَجَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَٰتِ رِزْقًۭا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا۟ لِلَّهِ أَندَادًۭا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (22)
ترجمہ: جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو۔ تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ
وَإِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍۢ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا۟ بِسُورَةٍۢ مِّن مِّثْلِهِۦ وَٱدْعُوا۟ شُهَدَآءَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ (23)
ترجمہ: اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے (اس خاص) بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ اور اللہ کے سوا، اپنے سب حمایتیوں کو بلا لو، اگر تم سچے ہو۔
فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا۟ وَلَن تَفْعَلُوا۟ فَٱتَّقُوا۟ ٱلنَّارَ ٱلَّتِى وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَـٰفِرِينَ (24)
ترجمہ: پھر اگر نہ لا سکو اور ہم فرمائے دیتے ہیں کہ ہر گز نہ لا سکو گے تو ڈرو اس آگ سے، جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں تیار رکھی ہے کافروں کے لئے۔
وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّـٰتٍۢ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا۟ مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍۢ رِّزْقًۭا ۙ قَالُوا۟ هَـٰذَا ٱلَّذِى رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا۟ بِهِۦ مُتَشَـٰبِهًۭا ۖ وَلَهُمْ فِيهَآ أَزْوَٰجٌۭ مُّطَهَّرَةٌۭ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ (25)
ترجمہ: اور خوشخبری دے ، انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے ، کہ ان کے لئے باغ ہیں ، جن کے نیچے نہریں رواں جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا، (صورت دیکھ کر) کہیں گے ، یہ تو وہی رزق ہے جو ہمیں پہلے ملا تھا اور وہ (صورت میں ) ملتا جلتا انہیں دیا گیا اور ان کے لئے ان باغوں میں ستھری بیبیاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔