ETV Bharat / bharat

فرمان الٰہی: اللہ تعالیٰ کی نظر میں نزول قرآن کا مقصد اور کامیابی کا پیمانہ، سورہ بقرہ کی آیات 1 تا 5 کا مطالعہ - Interpretation of Surah Baqarah

فرمان الٰہی کی اس سیریز میں آج ہم قرآن کریم کی دوسری سورہ 'البقرۃ' کی پانچ آیات کو تراجم اور تفاسیر کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ Farman e Ilahi

سورہ بقرہ کی پانچ آیتوں کا ترجمہ اور تفسیر
سورہ بقرہ کی پانچ آیتوں کا ترجمہ اور تفسیر (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jun 3, 2024, 10:35 AM IST

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
الٓمّٓ ۟ۚ(1) ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ۖۚۛ— فِیْهِ ۚۛ— هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ۟ۙ (2) الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ۟ۙ (3) وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ— وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ ۟ؕ (4) اُولٰٓىِٕكَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِمْ ۗ— وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۟ (5)

الٓمّٓ ۟ۚ

ترجمہ: الف، لام، میم (1)

1 ۔ ان حروف کے معانی سے عوام کو اطلاع نہیں دی گئی۔ شاید حامل وحی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلا دیا گیا ہو کیونکہ اللہ اور اس کے رسول نے اہتمام کے ساتھ وہی باتیں بتلائی ہیں جن کے نہ جاننے سے دین میں کوئی جرح اور نقصان لازم آتا تھا لیکن ان حروف کا مفہوم نہ جاننے سے کوئی حرج نہ تھا اس لیے ہم کو بھی ایسے امور کی تفتیش نہ چاہیے۔

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ۖۚۛ— فِیْهِ ۚۛ— هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ۟ۙ

ترجمہ: یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں (2) راہ بتلانے والی ہے خدا سے ڈرنے والوں کو ( 3 ) ۔ (2)

2 - یعنی قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں یعنی یہ امر یقینی ہے کہ اگر کوئی نافہم اس میں شبہ رکھا ہو کیونکہ یقینی بات کسی کے شبہ کرنے سے بھی یقینی یہ رہتی ہے۔ 3 - کیونکہ جس کا خوف خدا نہ ہو وہ قرآن کا بتلایا ہوا راستہ نہیں دیکھتا۔

الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ۟ۙ

ترجمہ: وہ (خدا سے ڈرنے والے) لوگ ایسے ہیں کہ یقین لاتے ہیں چھپی ہوئی (4) چیزوں پر اور قائم رکھتے ہیں ( 5 ) نماز کو اور جو کچھ دیا ہے ہم نے ان کو اس میں سے خرچ کرتے ہیں (3)-(6)

4 ۔ یعنی جو چیزیں حواس اور عقل سے پوشیدہ ہیں ان کو صرف اللہ و رسول کے فرمانے سے صحیح مان لیتے ہیں۔ 5 - یعنی اس کو پابندی سے ہمیشہ ادا کرتے ہیں اور اس کے شرائط اور ارکان کو پورا پورا بجالاتے ہیں۔ 6 ۔ یعنی نیک کاموں میں۔

وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ— وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ

ترجمہ: اور وہ لوگ ایسے ہیں کہ یقین رکھتے ہیں (کتاب) پر بھی جو آپ کی طرف اتاری گئی ہو اور ان (کتابوں) پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری جاچکی ہیں (7) اور آخرت پر بھی وہ لوگ یقین رکھتے ہیں (8) ۔ (4)

7 - یعنی قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور پہلی آسمانی کتابوں پر بھی۔ ایمان سچا سمجھنے کو کہتے ہیں عمل کرنا دوسری بات ہے پس حق تعالی نے جتنی کتابیں انبیائے سلف علہیم السلام پر نازل کی ہیں سب کو سچا سمجھنا فرج اور شرط ایمان ہے رہ گیا عمل سو وہ صرف قرآن پر ہوگا پہلی کتابیں منسوخ ہو گئی ہیں اس لیے ان پر عمل جائز نہیں۔

8 - آخرت سے قیامت کا دن مراد ہے چونکہ وہ دن دنیا کے بعد آئے گا اس لیے اس کو آخرت کہتے ہیں۔

اُولٰٓىِٕكَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِمْ ۗ— وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۟

ترجمہ: یہ لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ملی ہے۔ اور یہ لوگ ہیں پورے کامیاب (1) ۔ ( 5 )

ف۔ 1 ۔ یعنی ایسے لوگوں کو دنیا میں نعمت ملی، کہ راہ حق نصیب ہوتی اور آخرت میں یہ دولت نصیب ہوگی کہ ہر طرح کی کامیابی ان کے لیے ہے۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

الٓمّٓ ۟ۚ

ترجمہ: الف، لام، میم (1)

سورة البقرة 1

یہ حروف مقطعات قرآن مجید کی بعض سورتوں کے آغاز میں پائے جاتے ہیں۔ جس زمانے میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اس دور کے اسالیب بیان میں اس طرح کے حروف مقطعات کا استعمال عام طور پر معروف تھا۔ خطیب اور شعراء دونوں اس اسلوب سے کام لیتے تھے۔ چناچہ اب بھی کلام جاہلیت کے جو نمونے محفوظ ہیں ان میں اس کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں۔ اس استعمال عام کی وجہ سے یہ مقطعات کوئی چیستاں نہ تھے جس کو بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو، بلکہ سامعین بالعموم جانتے تھے کہ ان سے مراد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے خلاف نبی سلم کے ہم عصر مخالفین میں سے کسی نے بھی یہ اعتراض کبھی نہیں کیا کہ یہ بے معنی حروف کیسے ہیں جو تم بعض سورتوں کی ابتداء میں بولتے ہو۔ اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام سے بھی ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ انہوں نے نبی ی اسلام سے ان کے معنی پوچھے ہوں۔ بعد میں اسلوب عربی زبان میں متروک ہوتا چلا گیا اور اس بنا پر مفسرین کے لیے ان کے معانی متعین کرنا مشکل ہو گیا۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ نہ تو ان حروف کا مفہوم سمجھنے پر قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کا انحصار ہے۔ اور نہ یہ بات ہے کہ اگر کوئی شخص ان کے معنی نہ جانے گا تو اس کے راہ راست پانے میں کوئی نقص رہ جائے گا۔ لہٰذا ایک عام ناظر کے لیے کچھ ضروری نہیں ہے کہ وہ ان کی تحقیق میں سرگرداں ہو۔

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ۖۚۛ— فِیْهِ ۚۛ— هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ۟ۙ

ترجمہ: یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں (2) ہے۔ ہدایت ہے اُن پر ہیز گاروں کے (3) لئے

2- اس کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ " بیشک یہ اللہ کی کتاب ہے۔ مگر ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک کی کوئی بات نہیں ہے۔ دنیا میں جتنی کتابیں امور مابعد الطبیعت اور حقائق ماوراء ادراک سے بحث کرتی ہیں وہ سب قیاس و گمان پر مبنی ہیں، اس لیے خود ان کے مصنف بھی اپنے بیانات کے بارے میں شک سے پاک نہیں ہو سکتے خواہ وہ کتنے ہی یقین کا اظہار کریں۔ لیکن یہ ایسی کتاب ہے جو سراسر علم حقیقت پر مبنی ہے، اس کا مصنف وہ ہے جو تمام حقیقتوں کا علم رکھتا ہے، اس لیے فی الواقع اس میں شک کے لیے کوئی جگہ نہیں، یہ دوسری بات ہے کہ انسان اپنی نادانی کی بنا پر اس کے بیانات میں شک کریں۔

3- یعنی یہ کتاب ہے تو سراسر ہدایت و رہنمائی، مگر اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی میں چند صفات پائی جاتی ہوں۔ ان میں سے اولین صفت یہ ہے کہ آدمی " پرہیز گار ہو۔ بھلائی اور برائی میں تمیز کرتا ہو۔ برائی سے 66 ہو۔ بچنا چاہتا بھلائی کا طالب ہو اور اس پر عمل کرنے کا خواہش مند ہو۔ رہے وہ لوگ جو دنیا میں جانوروں کی طرح جیتے ہوں جنہیں کبھی یہ فکر لاحق نہ ہوتی ہو کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ صحیح بھی ہے یا نہیں، بس جدھر دنیا چل رہی ہو، یا جدھر خواہش نفس دھکیل دے، یا جدھر قدم اٹھ جائیں، اسی طرف چل پڑتے ہوں، تو ایسے لوگوں کے لیے قرآن میں کوئی رہنمائی نہیں ہے۔

الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ۟ۙ

ترجمہ: جو غیب پر ایمان لاتے (4) ہیں، نماز قائم کرتے ہیں (5)، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں (6)

4- یہ قرآن سے فائدہ اٹھانے کے لیے دوسری شرط ہے۔ ” غیب اور سے مراد وہ حقیقتیں ہیں کبھی جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہیں تجربہ و مشاہدہ میں نہیں براہ راست عام انسانوں کے آتیں۔ مثلاً خدا کی ذات وصفات ملائکه، وحی، جنت دوزخ وغیرہ۔ ان حقیقتوں کو بغیر دیکھے ماننا اور اس اعتماد پر ماننا کہ نبی ان کی خبر دے رہا ہے، ایمان بالغیب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان غیر محسوس حقیقتوں کو ماننے کے لیے تیار ہو صرف وہی قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ رہا وہ شخص جو ماننے کے لیے دیکھنے اور چکھنے اور سونگھنے کی شرط لگائے، اور جو کہے کہ میں کسی ایسی چیز کو نہیں مان سکتا جو ناپی اور تولی نہ جاسکتی ہو تو وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پاسکتا۔

5- یہ تیسری شرط ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صرف مان کر بیٹھ جانے والے ہوں وہ قرآن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایمان لانے کے بعد فوراً ہی عملی اطاعت کے لیے آمادہ ہو جائے۔ اور عملی اطاعت کی اولین علامت اور دائمی علامت نماز ہے۔ ایمان لانے پر چند گھنٹے بھی نہیں گزرتے کہ مودن نماز کے لیے پکارتا ہے اور اسی وقت فیصلہ ہو جاتا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والا اطاعت کے لیے بھی تیار ہے یا نہیں۔ پھر یہ مودن روز پانچ وقت پکارتا رہتا ہے، اور جب بھی انسان اس کی پکار پر لبیک نہ کہے اسی وقت ظاہر ہو جاتا ہے کہ مدعی ایمان اطاعت سے خارج ہو گیا ہے۔ پس ترک نماز دراصل ترک اطاعت ہے، اور ظاہر بات ہے کہ جو شخص کسی کی ہدایت پر کاربند ہونے کے لیے ہی تیار نہ ہو اس کے لیے ہدایت دینا اور نہ دینا یکساں ہے۔ یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اقامت صلوۃ ایک جامع اصلاح ہے۔ اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی طور پر نماز کا نظام باقاعدہ قائم کیا جائے۔ اگر کسی بستی میں ایک ایک شخص انفرادی طور پر نماز کا پابند ہو، لیکن جماعت کے ساتھ اس فرض کے ادا کرنے کا نظم نہ ہو تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہاں نماز قائم کی جا رہی ہے۔

6- یہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانے کے لیے چوتھی شرط ہے که آدمی تنگ دل نہ ہو، زر پرست نہ ہو، اس کے مال میں خدا اور بندوں کے جو حقوق مقرر کیے جائیں انہیں ادا کرنے کے لیے تیار ہو، جس چیز پر ایمان لایا ہے اس کی خاطر مالی قربانی کرنے میں بھی دریغ نہ کرے۔

وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ— وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ ۟۔ أولئِكَ عَلَى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔

ترجمہ: جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے یعنی قرآن اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں. (7)، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں (8) ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں.

7- یہ پانچویں شرط ہے کہ آدمی ان تمام کتابوں کو برحق تسلیم کرے جو وحی کے ذریعے سے خدا نے محمد ملیالم اور ان سے پہلے کے انبیاء پر مختلف زمانوں اور ملکوں میں نازل کیں۔ اس شرط کی بنا پر قرآن کی ہدایت کا دروازہ ان سب لوگوں پر بند ہے جو سرے سے اس ضرورت ہی کے قائل نہ ہوں کہ انسان کو خدا کی طرف سے ہدایت ملنی چاہیے، یا اس ضرورت کے تو قائل ہوں مگر اس کے لیے وحی و رسالت کی طرف رجوع کرنا غیر ضروری سمجھتے ہوں اور خود کچھ نظریات قائم کر کے انہی کو خدائی ہدایت قرار دے بیٹھیں، یا آسمانی کتابوں کے بھی قائل ہوں، مگر صرف اس کتاب یا ان کتابوں پر ایمان لائیں جنہیں ان کے باپ دادا مانتے چلے آئے ہیں، رہی اسی سر چشمے سے نکلی ہوئی دوسری ہدایات تو وہ ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیں۔ ایسے سب لوگوں کو الگ کر کے قرآن اپنا چشمہء

فیض صرف ان لوگوں کے لیے کھولتا ہے جو اپنے آپ کو خدائی ہدایت کا محتاج بھی مانتے ہوں، اور یہ بھی تسلیم کرتے ہوں کہ خدا کی یہ ہدایت ہر انسان کے پاس الگ الگ نہیں آتی بلکہ انبیاء اور کتب آسمانی کے ذریعے سے ہی خلق تک پہنچتی ہے، اور پھر وہ کسی نسلی و قومی تعصب میں بھی مبتلا نہ ہوں بلکہ خالص حق کے پرستار ہوں، اس لیے حق جہاں جہاں جس شکل میں بھی آیا ہے اس کے آگے سر جھکا دیں۔

8- 66 یہ چھٹی اور آخری شرط ہے۔ " آخرت “ ایک جامع لفظ ہے جس کا اطلاق بہت سے عقائد کے مجموعے پر ہوتا ہے۔ اس میں حسب ذیل عقائد شامل ہیں:

(1) یہ کہ انسان اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اپنے تمام اعمال کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔

(2) یہ کہ دنیا کا موجودہ نظام ابدی نہیں ہے بلکہ ایک وقت پر، جسے صرف خدا ہی جانتا ہے، اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔

(3) یہ کہ اس عالم کے خاتمے کے بعد خدا ایک دوسرا عالم بنائے گا اور اس میں پوری نوع انسانی کو جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک زمین پر پیدا ہوئی تھی، بیک وقت دوبارہ پیدا کرے گا، اور سب کو جمع کر کے ان کے اعمال کا حساب لے گا، اور ہر ایک کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ ( ٤ ) یہ کہ خدا کے اس فیصلے کی رو سے جو لوگ نیک قرار پائیں گے وہ جنت میں جائیں گے اور جو لوگ بد ٹھہریں گے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔

(5) یہ کہ کامیابی و ناکامی کا اصلی معیار موجودہ زندگی کی خوشحالی و بد حالی نہیں ہے، بلکہ در حقیقت کامیاب انسان وہ ہے جو خدا کے آخری فیصلے میں کامیاب ٹھہرے، اور ناکام وہ ہے جو وہاں ناکام ہو۔

عقائد کے اس مجموعے پر جن لوگوں کو یقین نہ ہو وہ قرآن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے، کیونکہ ان باتوں کا انکار تو در کنار، اگر کسی کے دل میں ان کی طرف سے شک اور تذبذب بھی ہو، تو وہ اس راستہ پر نہیں چل سکتا جو انسانی زندگی کے لیے قرآن نے تجویز کیا ہے۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

الٓمّٓ ۟ۚ(1)

ترجمہ: (1) الم

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ۖۚۛ— فِیْهِ ۚۛ— هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ۟ۙ (2)

ترجمہ: (2) وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں ، اس میں ہدایت ہے ڈر والوں کو

الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ۟ۙ (3)

ترجمہ: (3) وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری میں اٹھائیں -

وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ— وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ ۟ؕ (4)

ترجمہ: (4) اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا اور آخرت پر یقین رکھیں ،
اُولٰٓىِٕكَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِمْ ۗ— وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۟ (5)

ترجمہ: (5) وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے ۔

یہ بھی پڑھیں: فرمان الٰہی: 'سورۃ البقرۃ' کا نام گائے پر کیوں؟ مفسرین کی نظر میں اس سورت کی اہمیت و فضیلت

فرمان الٰہی: سورہ فاتحہ کی اہمیت، معنیٰ و مفہوم - Importance Of Surah Fatiha

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
الٓمّٓ ۟ۚ(1) ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ۖۚۛ— فِیْهِ ۚۛ— هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ۟ۙ (2) الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ۟ۙ (3) وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ— وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ ۟ؕ (4) اُولٰٓىِٕكَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِمْ ۗ— وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۟ (5)

الٓمّٓ ۟ۚ

ترجمہ: الف، لام، میم (1)

1 ۔ ان حروف کے معانی سے عوام کو اطلاع نہیں دی گئی۔ شاید حامل وحی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلا دیا گیا ہو کیونکہ اللہ اور اس کے رسول نے اہتمام کے ساتھ وہی باتیں بتلائی ہیں جن کے نہ جاننے سے دین میں کوئی جرح اور نقصان لازم آتا تھا لیکن ان حروف کا مفہوم نہ جاننے سے کوئی حرج نہ تھا اس لیے ہم کو بھی ایسے امور کی تفتیش نہ چاہیے۔

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ۖۚۛ— فِیْهِ ۚۛ— هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ۟ۙ

ترجمہ: یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں (2) راہ بتلانے والی ہے خدا سے ڈرنے والوں کو ( 3 ) ۔ (2)

2 - یعنی قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں یعنی یہ امر یقینی ہے کہ اگر کوئی نافہم اس میں شبہ رکھا ہو کیونکہ یقینی بات کسی کے شبہ کرنے سے بھی یقینی یہ رہتی ہے۔ 3 - کیونکہ جس کا خوف خدا نہ ہو وہ قرآن کا بتلایا ہوا راستہ نہیں دیکھتا۔

الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ۟ۙ

ترجمہ: وہ (خدا سے ڈرنے والے) لوگ ایسے ہیں کہ یقین لاتے ہیں چھپی ہوئی (4) چیزوں پر اور قائم رکھتے ہیں ( 5 ) نماز کو اور جو کچھ دیا ہے ہم نے ان کو اس میں سے خرچ کرتے ہیں (3)-(6)

4 ۔ یعنی جو چیزیں حواس اور عقل سے پوشیدہ ہیں ان کو صرف اللہ و رسول کے فرمانے سے صحیح مان لیتے ہیں۔ 5 - یعنی اس کو پابندی سے ہمیشہ ادا کرتے ہیں اور اس کے شرائط اور ارکان کو پورا پورا بجالاتے ہیں۔ 6 ۔ یعنی نیک کاموں میں۔

وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ— وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ

ترجمہ: اور وہ لوگ ایسے ہیں کہ یقین رکھتے ہیں (کتاب) پر بھی جو آپ کی طرف اتاری گئی ہو اور ان (کتابوں) پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری جاچکی ہیں (7) اور آخرت پر بھی وہ لوگ یقین رکھتے ہیں (8) ۔ (4)

7 - یعنی قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور پہلی آسمانی کتابوں پر بھی۔ ایمان سچا سمجھنے کو کہتے ہیں عمل کرنا دوسری بات ہے پس حق تعالی نے جتنی کتابیں انبیائے سلف علہیم السلام پر نازل کی ہیں سب کو سچا سمجھنا فرج اور شرط ایمان ہے رہ گیا عمل سو وہ صرف قرآن پر ہوگا پہلی کتابیں منسوخ ہو گئی ہیں اس لیے ان پر عمل جائز نہیں۔

8 - آخرت سے قیامت کا دن مراد ہے چونکہ وہ دن دنیا کے بعد آئے گا اس لیے اس کو آخرت کہتے ہیں۔

اُولٰٓىِٕكَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِمْ ۗ— وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۟

ترجمہ: یہ لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ملی ہے۔ اور یہ لوگ ہیں پورے کامیاب (1) ۔ ( 5 )

ف۔ 1 ۔ یعنی ایسے لوگوں کو دنیا میں نعمت ملی، کہ راہ حق نصیب ہوتی اور آخرت میں یہ دولت نصیب ہوگی کہ ہر طرح کی کامیابی ان کے لیے ہے۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

الٓمّٓ ۟ۚ

ترجمہ: الف، لام، میم (1)

سورة البقرة 1

یہ حروف مقطعات قرآن مجید کی بعض سورتوں کے آغاز میں پائے جاتے ہیں۔ جس زمانے میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اس دور کے اسالیب بیان میں اس طرح کے حروف مقطعات کا استعمال عام طور پر معروف تھا۔ خطیب اور شعراء دونوں اس اسلوب سے کام لیتے تھے۔ چناچہ اب بھی کلام جاہلیت کے جو نمونے محفوظ ہیں ان میں اس کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں۔ اس استعمال عام کی وجہ سے یہ مقطعات کوئی چیستاں نہ تھے جس کو بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو، بلکہ سامعین بالعموم جانتے تھے کہ ان سے مراد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے خلاف نبی سلم کے ہم عصر مخالفین میں سے کسی نے بھی یہ اعتراض کبھی نہیں کیا کہ یہ بے معنی حروف کیسے ہیں جو تم بعض سورتوں کی ابتداء میں بولتے ہو۔ اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام سے بھی ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ انہوں نے نبی ی اسلام سے ان کے معنی پوچھے ہوں۔ بعد میں اسلوب عربی زبان میں متروک ہوتا چلا گیا اور اس بنا پر مفسرین کے لیے ان کے معانی متعین کرنا مشکل ہو گیا۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ نہ تو ان حروف کا مفہوم سمجھنے پر قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کا انحصار ہے۔ اور نہ یہ بات ہے کہ اگر کوئی شخص ان کے معنی نہ جانے گا تو اس کے راہ راست پانے میں کوئی نقص رہ جائے گا۔ لہٰذا ایک عام ناظر کے لیے کچھ ضروری نہیں ہے کہ وہ ان کی تحقیق میں سرگرداں ہو۔

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ۖۚۛ— فِیْهِ ۚۛ— هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ۟ۙ

ترجمہ: یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں (2) ہے۔ ہدایت ہے اُن پر ہیز گاروں کے (3) لئے

2- اس کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ " بیشک یہ اللہ کی کتاب ہے۔ مگر ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک کی کوئی بات نہیں ہے۔ دنیا میں جتنی کتابیں امور مابعد الطبیعت اور حقائق ماوراء ادراک سے بحث کرتی ہیں وہ سب قیاس و گمان پر مبنی ہیں، اس لیے خود ان کے مصنف بھی اپنے بیانات کے بارے میں شک سے پاک نہیں ہو سکتے خواہ وہ کتنے ہی یقین کا اظہار کریں۔ لیکن یہ ایسی کتاب ہے جو سراسر علم حقیقت پر مبنی ہے، اس کا مصنف وہ ہے جو تمام حقیقتوں کا علم رکھتا ہے، اس لیے فی الواقع اس میں شک کے لیے کوئی جگہ نہیں، یہ دوسری بات ہے کہ انسان اپنی نادانی کی بنا پر اس کے بیانات میں شک کریں۔

3- یعنی یہ کتاب ہے تو سراسر ہدایت و رہنمائی، مگر اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی میں چند صفات پائی جاتی ہوں۔ ان میں سے اولین صفت یہ ہے کہ آدمی " پرہیز گار ہو۔ بھلائی اور برائی میں تمیز کرتا ہو۔ برائی سے 66 ہو۔ بچنا چاہتا بھلائی کا طالب ہو اور اس پر عمل کرنے کا خواہش مند ہو۔ رہے وہ لوگ جو دنیا میں جانوروں کی طرح جیتے ہوں جنہیں کبھی یہ فکر لاحق نہ ہوتی ہو کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ صحیح بھی ہے یا نہیں، بس جدھر دنیا چل رہی ہو، یا جدھر خواہش نفس دھکیل دے، یا جدھر قدم اٹھ جائیں، اسی طرف چل پڑتے ہوں، تو ایسے لوگوں کے لیے قرآن میں کوئی رہنمائی نہیں ہے۔

الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ۟ۙ

ترجمہ: جو غیب پر ایمان لاتے (4) ہیں، نماز قائم کرتے ہیں (5)، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں (6)

4- یہ قرآن سے فائدہ اٹھانے کے لیے دوسری شرط ہے۔ ” غیب اور سے مراد وہ حقیقتیں ہیں کبھی جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہیں تجربہ و مشاہدہ میں نہیں براہ راست عام انسانوں کے آتیں۔ مثلاً خدا کی ذات وصفات ملائکه، وحی، جنت دوزخ وغیرہ۔ ان حقیقتوں کو بغیر دیکھے ماننا اور اس اعتماد پر ماننا کہ نبی ان کی خبر دے رہا ہے، ایمان بالغیب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان غیر محسوس حقیقتوں کو ماننے کے لیے تیار ہو صرف وہی قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ رہا وہ شخص جو ماننے کے لیے دیکھنے اور چکھنے اور سونگھنے کی شرط لگائے، اور جو کہے کہ میں کسی ایسی چیز کو نہیں مان سکتا جو ناپی اور تولی نہ جاسکتی ہو تو وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پاسکتا۔

5- یہ تیسری شرط ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صرف مان کر بیٹھ جانے والے ہوں وہ قرآن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایمان لانے کے بعد فوراً ہی عملی اطاعت کے لیے آمادہ ہو جائے۔ اور عملی اطاعت کی اولین علامت اور دائمی علامت نماز ہے۔ ایمان لانے پر چند گھنٹے بھی نہیں گزرتے کہ مودن نماز کے لیے پکارتا ہے اور اسی وقت فیصلہ ہو جاتا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والا اطاعت کے لیے بھی تیار ہے یا نہیں۔ پھر یہ مودن روز پانچ وقت پکارتا رہتا ہے، اور جب بھی انسان اس کی پکار پر لبیک نہ کہے اسی وقت ظاہر ہو جاتا ہے کہ مدعی ایمان اطاعت سے خارج ہو گیا ہے۔ پس ترک نماز دراصل ترک اطاعت ہے، اور ظاہر بات ہے کہ جو شخص کسی کی ہدایت پر کاربند ہونے کے لیے ہی تیار نہ ہو اس کے لیے ہدایت دینا اور نہ دینا یکساں ہے۔ یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اقامت صلوۃ ایک جامع اصلاح ہے۔ اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی طور پر نماز کا نظام باقاعدہ قائم کیا جائے۔ اگر کسی بستی میں ایک ایک شخص انفرادی طور پر نماز کا پابند ہو، لیکن جماعت کے ساتھ اس فرض کے ادا کرنے کا نظم نہ ہو تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہاں نماز قائم کی جا رہی ہے۔

6- یہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانے کے لیے چوتھی شرط ہے که آدمی تنگ دل نہ ہو، زر پرست نہ ہو، اس کے مال میں خدا اور بندوں کے جو حقوق مقرر کیے جائیں انہیں ادا کرنے کے لیے تیار ہو، جس چیز پر ایمان لایا ہے اس کی خاطر مالی قربانی کرنے میں بھی دریغ نہ کرے۔

وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ— وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ ۟۔ أولئِكَ عَلَى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔

ترجمہ: جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے یعنی قرآن اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں. (7)، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں (8) ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں.

7- یہ پانچویں شرط ہے کہ آدمی ان تمام کتابوں کو برحق تسلیم کرے جو وحی کے ذریعے سے خدا نے محمد ملیالم اور ان سے پہلے کے انبیاء پر مختلف زمانوں اور ملکوں میں نازل کیں۔ اس شرط کی بنا پر قرآن کی ہدایت کا دروازہ ان سب لوگوں پر بند ہے جو سرے سے اس ضرورت ہی کے قائل نہ ہوں کہ انسان کو خدا کی طرف سے ہدایت ملنی چاہیے، یا اس ضرورت کے تو قائل ہوں مگر اس کے لیے وحی و رسالت کی طرف رجوع کرنا غیر ضروری سمجھتے ہوں اور خود کچھ نظریات قائم کر کے انہی کو خدائی ہدایت قرار دے بیٹھیں، یا آسمانی کتابوں کے بھی قائل ہوں، مگر صرف اس کتاب یا ان کتابوں پر ایمان لائیں جنہیں ان کے باپ دادا مانتے چلے آئے ہیں، رہی اسی سر چشمے سے نکلی ہوئی دوسری ہدایات تو وہ ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیں۔ ایسے سب لوگوں کو الگ کر کے قرآن اپنا چشمہء

فیض صرف ان لوگوں کے لیے کھولتا ہے جو اپنے آپ کو خدائی ہدایت کا محتاج بھی مانتے ہوں، اور یہ بھی تسلیم کرتے ہوں کہ خدا کی یہ ہدایت ہر انسان کے پاس الگ الگ نہیں آتی بلکہ انبیاء اور کتب آسمانی کے ذریعے سے ہی خلق تک پہنچتی ہے، اور پھر وہ کسی نسلی و قومی تعصب میں بھی مبتلا نہ ہوں بلکہ خالص حق کے پرستار ہوں، اس لیے حق جہاں جہاں جس شکل میں بھی آیا ہے اس کے آگے سر جھکا دیں۔

8- 66 یہ چھٹی اور آخری شرط ہے۔ " آخرت “ ایک جامع لفظ ہے جس کا اطلاق بہت سے عقائد کے مجموعے پر ہوتا ہے۔ اس میں حسب ذیل عقائد شامل ہیں:

(1) یہ کہ انسان اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اپنے تمام اعمال کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔

(2) یہ کہ دنیا کا موجودہ نظام ابدی نہیں ہے بلکہ ایک وقت پر، جسے صرف خدا ہی جانتا ہے، اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔

(3) یہ کہ اس عالم کے خاتمے کے بعد خدا ایک دوسرا عالم بنائے گا اور اس میں پوری نوع انسانی کو جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک زمین پر پیدا ہوئی تھی، بیک وقت دوبارہ پیدا کرے گا، اور سب کو جمع کر کے ان کے اعمال کا حساب لے گا، اور ہر ایک کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ ( ٤ ) یہ کہ خدا کے اس فیصلے کی رو سے جو لوگ نیک قرار پائیں گے وہ جنت میں جائیں گے اور جو لوگ بد ٹھہریں گے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔

(5) یہ کہ کامیابی و ناکامی کا اصلی معیار موجودہ زندگی کی خوشحالی و بد حالی نہیں ہے، بلکہ در حقیقت کامیاب انسان وہ ہے جو خدا کے آخری فیصلے میں کامیاب ٹھہرے، اور ناکام وہ ہے جو وہاں ناکام ہو۔

عقائد کے اس مجموعے پر جن لوگوں کو یقین نہ ہو وہ قرآن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے، کیونکہ ان باتوں کا انکار تو در کنار، اگر کسی کے دل میں ان کی طرف سے شک اور تذبذب بھی ہو، تو وہ اس راستہ پر نہیں چل سکتا جو انسانی زندگی کے لیے قرآن نے تجویز کیا ہے۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

الٓمّٓ ۟ۚ(1)

ترجمہ: (1) الم

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ۖۚۛ— فِیْهِ ۚۛ— هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ۟ۙ (2)

ترجمہ: (2) وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں ، اس میں ہدایت ہے ڈر والوں کو

الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ۟ۙ (3)

ترجمہ: (3) وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری میں اٹھائیں -

وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ— وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ ۟ؕ (4)

ترجمہ: (4) اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا اور آخرت پر یقین رکھیں ،
اُولٰٓىِٕكَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِمْ ۗ— وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۟ (5)

ترجمہ: (5) وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے ۔

یہ بھی پڑھیں: فرمان الٰہی: 'سورۃ البقرۃ' کا نام گائے پر کیوں؟ مفسرین کی نظر میں اس سورت کی اہمیت و فضیلت

فرمان الٰہی: سورہ فاتحہ کی اہمیت، معنیٰ و مفہوم - Importance Of Surah Fatiha

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.