سورہ فاتحہ قرآن کریم کی پہلی سورت ہے۔ یہ وہ سورۃ ہے جسے سبھی نمازوں میں پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 'اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے اس میں فاتحۃ الکتاب نہیں پڑھی۔' دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ “جس نے أم القرآن (یعنی سورۃ الفاتحہ) پڑھے بغیر نماز ادا کی تو وہ نماز ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، نامکمل ہے۔''
- آیات کے مضمون پر ایک نظر:
سورہ فاتحہ میں کل سات آیتیں ہیں۔ یہ سورت جہاں مکمل اور جامع ترین دعا ہے، وہیں اپنے آپ میں آداب دعا کا ایک درس بھی ہے۔
اس سورہ کی پہلی تین آیتوں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے۔ یہ تین آیتیں قاری کو آداب دعا بھی سکھاتی ہیں۔
چوتھی آیت میں حمد و ثناء اور دعاء و التجا دونوں چیزیں مشترک ہیں۔ ایک طرح سے بیچ کی یہ آیت انتہائی خوبصورتی سے سورۃ کا مضمون حمد و ثناء سے بدل کر دعا اور فریاد کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس آیت کے پہلے حصے (إِيَّاكَ نَعۡبُدُ) میں خدا کی خوشنودی ہے تو دوسرے حصے (وَإِيَّاكَ نَسۡتَعِينُ) میں فریاد اور التجا ہے، جس سے قاری کو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ حمد و ثنا سے مِنَّت سَماجَت پر منتقل ہوگیا۔
اس کے بعد کی آخری تین آیتوں میں انسان کی طرف سے وہ دعاء و درخواست کی گئی ہے جسے رب العزت نے اپنی رحمت سے خود ہی انسان کو سکھایا ہے۔
- سورۃ کا ترجمہ
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
ترجمہ: اللہ کے نام سے جو بہت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔
ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَـٰلَمِينَ (1)
ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام کائنات کا رب ہے۔
ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ (2)
ترجمہ: جو بڑا مہربان اور نہایت رحیم ہے۔
مَـٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ (3)
ترجمہ: جو روز جزا کا مالک ہے۔
إِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَإِيَّاكَ نَسۡتَعِينُ (4)
ترجمہ: ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔
ٱهۡدِنَا ٱلصِّرَٲطَ ٱلۡمُسۡتَقِيمَ (5)
ترجمہ: ہمیں سیدھا راستہ دکھا
صِرَٲطَ ٱلَّذِينَ أَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ (6)
ترجمہ: ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام فرمایا۔
غَيۡرِ ٱلۡمَغۡضُوبِ عَلَيۡهِمۡ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ (7)۔
ترجمہ: جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہے۔
- مفسرین کے بیانات
بیان القرآن:
یہ سورت رب العالمین نے اپنے بندوں کی زبان سے فرمائی کہ ان الفاظ میں اپنے خالق و رازق کے سامنے عرض مدعا کیا کریں۔ (مولانا اشرف علی تھانوی)
کنز الایمان:
سورۃ فاتحہ مکی سورت ہے۔ یعنی ہجرت مدینہ سے پہلے نازل ہوئی۔ اس کی سات آیتیں ہیں۔ یہ دوبار نازل ہوئی۔ اس کے کئی نام ہیں جن میں سبع المثانی، ام القرآن، الحمد، کنز اور شفا بھی ہیں۔ قرآن مجید کے مضامین کا اجمالی خلاصہ اس سورۃ مبارکہ میں موجود ہے۔ ابتدا میں خالق کائنات جل شانہ کی عظمت و توحید شان رحمت و شفقت کا ذکر، روز جزا کی ملکیت اور اختیار کا تذکرہ ہے۔ پھر اس کی شان معبودیت واحدیت کا ذکر ہے۔ بندہ کی طرف سے اپنے عجز و انکساری کا ذکر ہے۔ اس کے بعد اللہ کریم کی بارگاہ میں دست سوال دراز کرنے کا اشارہ ہے کہ وہ اپنے خزانوں سے سب کو سب کچھ دینے والا ہے۔ اس کی عطا اور مدد کے بغیر کوئی کسی کی مدد نہیں کر سکتا۔ پھر اس کے انعام یافتہ بندوں کا تذکرہ کرکے ان کے راستہ پر چلنے اور ان کے زمرہ میں شامل ہونے کی دعا ہے۔ (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)
تفہیم القرآن:
اسلام جو تہذیب انسان کو سکھاتا ہے اس کے قواعد میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہر کام کی ابتداء خدا کے نام سے کرے۔ اس قاعدے کی پابندی اگر شعور کے ساتھ کی جائے تو اس سے لازماً تین فائدے حاصل ہوں گے ۔ ایک یہ کہ آدمی بہت سے برے کاموں سے بچ جائے گا، کیونکہ خدا کا نام لینے کی عادت اسے ہر کام شروع کرتے وقت یہ سوچنے پر مجبور کر دے گی کہ کیا واقعی میں اس کام پر خدا کا نام لینے میں حق بجانب ہوں؟۔۔۔۔۔ سورۃ فاتحہ اصل میں تو ایک دعا ہے، لیکن دعا کی ابتدا اس ہستی کی تعریف سے کی جا رہی ہے جس سے ہم دعا مانگنا چاہتے ہیں۔ یہ گویا اس امر کی تعلیم ہے کہ دعا جب مانگو تو مہذب طریقہ سے مانگو۔ یہ کوئی تہذیب نہیں ہے کہ منہ کھولتے ہی جھٹ اپنا مطلب پیش کر دیا۔ تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ جس سے دعا کر رہے ہو، پہلے اس کی خوبی کا، اس کے احسانات اور اس کے مرتبے کا اعتراف کرو۔ (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)