حیدرآباد: منگل کے روز 2024 کے 18ویں لوک سبھا انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا گیا تو اس میں مسلم امیدواروں کے جیت کا فیصد کافی کم رہا۔ یہ فیصد اس لیے بھی کم تھا کہ انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیوں نے بی جے پی کے پولرائزیشن پالیسی سے گھبرا کر مسلم امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارنے سے گریز کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ، اب صرف 24 مسلم ممبران پارلیمنٹ دیکھنے کا امکان ہے، جو 2019 کے برابر ہیں جو کہ 543 ممبران کے ایوان میں اب تک کی تیسری سب سے کم تعداد ہے۔ 2014 کے عام انتخابات میں 22 مسلم ایم پی پارلیمنٹ پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے جو کہ مسلمانوں کی سب سے کم نمائندگی تھی، جب کہ 1980 میں مسلم کمیونٹی کے سب سے زیادہ 49 ممبران پارلیمان تھے۔
اس سال لوک سبھا انتخابات میں کل 78 مسلم امیدوار انتخابی میدان میں تھے، جو کہ گزشتہ انتخابات سے کافی کم ہیں۔ 2019 میں مختلف پارٹیوں نے 115 مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا۔ جن نشستوں سے مسلم امیدواروں نے جیت درج کی ہے ان میں سے 14 ایسی سیٹیں ہیں جہاں کمیونٹی اکثریت میں ہے۔
- اتر پردیش سے 5 مسلم امیدوار کامیاب:
جن مسلم امیدواروں نے جیت درج کی ہے ان میں اتر پردیش کے سہارنپور پارلیمانی حلقہ سے کانگریس کے امیدوار عمران مسعود کا نام قابل ذکر ہے۔ عمران مسعود نے 64,542 ووٹوں سے جیت درج کی ہے۔ سماجوادی پارٹی کی اقراء چودھری نے اتر پردیش کی کیرانہ سیٹ سے 69,116 ووٹوں سے جیت درج کی۔ کیرانہ میں اقراء چودھری کو کل 528013 ووٹ ملے۔ یہاں سے اقراء نے بی جے پی کے پردیپ کمار کو زبردست شکست سے دو چار کیا۔ مرحوم مختار انصاری کے بھائی افضال انصاری نے اتر پردیش کی غازی پور لوک سبھا سیٹ سے 1,24,861 ووٹوں سے جیت درج کی۔ تو وہیں رامپور سیٹ سے سماجوادی پارٹی کے محب اللہ نے 87,434 ووٹوں سے جیت کا پرچم لہرایا۔ یو پی کی سنبھل سیٹ سے سماجوادی پارٹی کے ضیاء الرحمان نے بی جے پی کے پرمیشور لال سینی کو 571161 ووٹوں سے شکست دی۔
- مغربی بنگال سے 6 مسلم امیدوار لوک سبھا پہنچے:
مغربی بنگال کی بات کریں تو ممتا بنرجی نے بہرام پور پارلیمانی سیٹ سے سابق کرکٹر یوسف پٹھان کو انتخابی میدان میں اتارا تھا۔ یوسف پٹھان نے بہرام پور سے کانگریس کے سینئر لیڈر ادھیر رنجن چودھری کو 85,022 ووٹوں سے ہرا دیا۔ مغربی بنگال کی جانگی پور سیٹ سے ٹی ایم سی کے امیدوار خلیل الرحمان نے 544427 ووٹوں سے جیت درج کی۔ مرشد آباد سیٹ سے ترنمول امیدوار ابوطاہر خان نے سی پی آئی( ایم) کے امیدوار محمد سلیم کو 682442 ووٹوں کے بڑے فرق سے شکست دی ہے۔ بشیر ہاٹ سے شیخ نورالاسلام نے 803762 ووٹوں سے جیت درج کی ہے۔ الوبیریا پارلیمانی سیٹ سے ترنمول کانگریس کی ساجدہ احمد نے شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی امیدوار کو 724622 سے شکست دی۔ مالدہ دکشن سے کانگریس امیدوار عیسیٰ خان چودھری نے بی جے پی امیدوار کو 572395 ووٹوں سے ہرا دیا۔
- حیدرآباد میں اویسی کا دبدبہ رہا برقرار:
تلنگانہ کی بات کریں تو یہاں کی حیدر آباد پارلیمانی سیٹ پر ایم آئی ایم کا قبضہ برقرار ہے۔ اسدالدین اویسی نے بی جے پی امیدوارہ مادھوی لتا کو 3,38,087 ووٹوں سے شکست دے کر بی جے پی کو خاموش کر دیا۔
- جموں کشمیر میں جیل میں بند انجینئر رشید الیکشن جیت گئے:
جموں کشمیر سے پارلیمنٹ پہنچنے والوں میں سب سے پہلا نام سرینگر پارلیمانی سیٹ سے نیشنل کانفرنس کے امیدوار سید روح اللہ مہدی کا ہے۔ روح اللہ مہدی نے 1,88,416 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ وہیں، جیل میں بند عبدالرشید شیخ نے بارہمولہ سیٹ سے این سی کے نائب صدر عمر عبداللہ کو شکست سے دو چار کیا۔ عبدالرشید انجینئر کو یہاں سے 2,04,142 ووٹوں سے جیت درج کی۔ اننت ناگ سیٹ سے پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کو شکست دینے والے نیشنل کانفرنس کے امیدوار میاں الطاف احمد کو کل 281794 ووٹ حاصل ہوئے۔ میاں الطاف احمد نے محبوبہ مفتی کو یہاں سے 521836 ووٹوں سے شکست دی۔ لداخ پارلیمانی سیٹ سے محمد حنیفہ نے کانگریس امیدوار کو 65259 سے شکست دی۔
- بہار سے صرف دو مسلم امیدوار کامیاب:
بہار سے صرف دو مسلم ارکان پارلیمنٹ لوک سبھا پہنچنے میں کامیاب ہو پائے ہیں۔ کشن گنج سے کانگریس امیدوار محمد جاوید نے جے ڈی یو امیدوار کو 402850 ووٹوں سے شکست دے کر اپنی جیت پکی کی۔ تو وہیں، کٹیہار لوک سبھا سیٹ کانگریس کے طارق انور نے جے ڈی یو کے دلال چندر سے چھین لی ہے۔ طارق انور نے یہاں 49 ہزار سے زائد ووٹوں سے جیت درج کی۔ طارق انور کو 567092 ووٹ ملے۔
- آسام میں مولانا بدالدین اجمل کو شکست:
آسام کی ڈھوبری لوک سبھا سیٹ جس سے مولانا بدرالدین اجمل نے لگاتار تین مرتبہ جیت درج کی تھی، اس سیٹ پر کانگریس امیدوار رقیب الحسن نے بدرالدین اجمل کو 1471885 ووٹوں کے ایک بڑے فرق سے شکست دی۔
- کیرالہ سے تین مسلم امیدوار فاتح قرار:
کیرالہ میں وڈکرا پارلیمانی سیٹ سے کانگریس کے شفیع پرمبل ، ملاّ پورم سیٹ سے ای ٹی محمد بشیر اور پونّنانی لوک سبھا سیٹ سے ڈاکٹر ایم پی عبدالصمد نے جیت درج کی ہے۔
وہیں، لکشدیپ سے کانگریس کے محمد حمیداللہ سعید نے جیت درج کی ہے۔ تو تمل ناڈو سے انڈین یونین مسلم لیگ کے نواسکنی کے نے فتح کا جھنڈا لہرایا ہے۔
مذہب کی بنیاد پر آبادی کے لحاظ سے مسلم کمیونٹی ملک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اگرچہ ہر انتخابی موسم میں مسلم ووٹروں کو ایک فیصلہ کن عنصر کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن کمیونٹی کی نمائندگی، یہاں تک کہ ریاستوں میں جہاں یہ آبادی کا ایک بڑا حصہ بنتی ہے، کم رہتی ہے۔
ہندوستان میں 15 مسلم اکثریتی حلقے ہیں۔ ان میں سے، مغربی بنگال کے بہرام پور نے 2019 میں کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری کو منتخب کیا تھا، اور اس بار کمیونٹی کے ایک رکن، ترنمول کانگریس یوسف پٹھان کو منتخب کیا ہے۔ آسام کے بارپیٹا میں بھی کمیونٹی غالب ہے، جہاں اس بار آسام گنا پریشد (اے جی پی) کے پھنی بھوسن چودھری نے کامیابی حاصل کی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار مسلم قانون سازوں کی کم ہوتی تعداد کو اس حقیقت سے منسوب کرتے ہیں کہ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے زیادہ تر اپوزیشن پارٹیاں ہر عام انتخابات میں ان کی تعداد میں کمی کے ساتھ پولرائزنگ مقابلے کے خوف سے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے سے گریز کرتی ہیں۔
کانگریس، ایس پی، اور ٹی ایم سی، انڈیا اتحاد کے اہم ارکان نے مسلم امیدواروں کو کم سیٹیں دیے۔ 2024 میں، کانگریس نے مسلمانوں کو صرف 19 سیٹوں پر نامزد کیا تھا جب کہ 2019 میں یہ تعداد 34 تھی۔ ٹی ایم سی نے 2019 میں 13 کے مقابلے میں چھ مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے۔ اور سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے پاس صرف چار مسلم امیدوار تھے، جو 2019 میں اس کی نصف تعداد تھی۔
یہ بھی پڑھیں: