حیدرآباد: اتر پردیش، مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ یہ ایسی ریاستیں ہیں جہاں عدالتوں کے انصاف سے پہلے ہی ریاستی حکومتوں نے بلڈوزر کے ذریعہ فیصلے سنائے۔ زیادہ تر معاملوں میں مسلم بستیوں یا مسلمانوں کے کاروباری علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ کئی معاملوں میں متاثرین نے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن حکومتوں نے مکانات اور دوکانوں کو غیر قانونی تعمیر قرار دے کر کارروائی کا دفاع کیا۔ کئی معاملوں میں ایسا ہوا کہ عدالت کی روک سے پہلے ہی بستیوں کو میدان میں تبدیل کر دیا گیا۔
لکھنؤ کے اکبر نگر میں بلڈوزر کارروائی:
بلڈوزر جسٹس میں سب سے آگے کسی کا نام آتا ہے تو وہ اترپردیش کی بی جے پی اقتدار والی یوگی حکومت کا ہے۔ یوگی حکومت نے لکھنؤ کے اکبر نگر میں ایک بڑے پیمانے پر بے دخلی مہم چلائی۔
|
اکبر نگر میں بلڈوزر کارروائی کا حکومت نے جو جواز دیا وہ قابل غور ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہاں تعمیرات تجاوزات ہیں۔ حکومت کا ماننا ہے کہ، اس علاقے پر دریا کا احاطہ کیا گیا تھا جس میں دریا کو لینڈ مافیا کے ساتھ ساتھ روہنگیا اور بنگلہ دیشی دراندازوں کی طرف سے غیر قانونی تعمیرات کا سامنا کرنا پڑا۔
مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا:
صرف اتر پردیش نہیں بلکہ مدھیہ پردیش حکومت بھی بلڈوزر جسٹس کے اس کھیل میں پیش پیش رہی۔ یہاں تو سیدھے طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنا کر کارروائی کی گئی۔
|
بلڈوزر کے اس راج سے ملک کی قومی دارالحکومت دہلی بھی اچھوتی نہیں رہی۔ مرکز کے زیرانتظام اس علاقہ میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے تو کیا ہوا یہاں پی ڈبلیو ڈی نے 14 مئی 2023 کو دھولا کوان میں کئی جھونپڑیوں کو منہدم کر دیا جس کے بعد سیکڑوں لوگ بے گھر ہو گئے۔
ہاؤسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک (HLRN) کے اعداد و شمار:
ایچ ایل آر این کے 2024 کے تخمینے کے مطابق، مقامی، ریاستی اور مرکزی سطح پر حکام نے 2022 اور 2023 ان دو سالوں میں لاکھوں مکانات کو منہدم کیا۔ اس کے مطابق
|
تعزیری انہدام کے معاملات میں جہاں جواز مبہم ہیں، جیسے تجاوزات کو ہٹانا یا شہر کی خوبصورتی کے لیے ریاست اکثر صفائی کے بہانے کا سہارا لیتی ہے۔
تعزیری انہدام کی کارروائیاں:
مدھیہ پردیش کے کھرگون میں جیرا پور گاؤں جیسے مقامات پر کئی معاملات اس طرح کی مسماری سے منسلک دکھائی دیتے ہیں۔ اسی فہرست میں اترپردیش کا پریاگ راج، سہارنپور، ہریانہ میں نوح اور دہلی میں جہانگیر پوری علاقہ شامل ہیں۔ ان معاملات میں سرکاری ایجنسیوں نے دعویٰ کیا کہ وہ سرکاری زمین سے غیر قانونی تعمیرات ہٹا رہے ہیں، لیکن اس بلڈوز کارروائی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ کارروائیاں مخصوص مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنا ر کی گئی ہیں۔
|
اسی طرح، مدھیہ پردیش کے کھرگون میں، اپریل 2022 میں رام نومی اور ہنومان جینتی کی تقریبات کے دوران پھوٹ پڑے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلایا گیا۔
|
اگرچہ قانون میں ایک تعزیری اقدام کے طور پر جائیداد کو منہدم کرنے کی دفعات شامل نہیں ہیں، لیکن یہ عمل بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں تیزی سے عام ہو گیا ہے۔
واضح رہے سپریم کورٹ میں جمعیت علماء ہند اور دیگر کی جانب سے بلڈوزر جسٹس کے خلاف عرضداشت دائر کی گئی تھی جس پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے پوچھا کہ کسی کا گھر کیسے گرایا جا سکتا ہے کیونکہ صرف وہ ملزم ہے؟ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اگر کوئی مجرم بھی ہے، تب بھی اسے قانون کے ذریعہ طے شدہ طریقہ کار پر عمل کیے بغیر منہدم نہیں کیا جا سکتا"۔
سپریم کورٹ کی جسٹس بی آر گاوائی اور کے وی وشوناتھن پر مشتمل بنچ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس عمل کو ہموار کیا جانا چاہئے اور مزید کہا ہے کہ " اس میں ایک بے قصور باپ کا بیٹا ہو سکتا ہے یا اس کے برعکس اور دونوں کو ایک دوسرے کے جرم کی سزا نہیں دی جانی چاہیے"۔ سپریم کورٹ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ غیر منقولہ جائیدادوں کو صرف درج ذیل طریقہ کار سے ہی مسمار کیا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کی بنچ نے سماعت کے دوران کہا کہ اگر عمل کو ہموار کیا جائے تو صحیح طریقہ کار عملی طور پر کام کرے گا۔ عرضی گزار جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دیو پیش ہوئے اور دوسری پارٹی کی طرف سے سینئر وکیل سی یو سنگھ پیش ہوئے تھے۔
اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اس تبصرے اور ہدایات کے بعد کیا متاثرین کے تباہ آشیانوں کو پھر سے تعمیر کیا جائے گا؟ کیا بے گھر ہوئے متاثرین کو دوبارہ چھت میسر ہو پائے گی؟
یہ بھی پڑھیں: