نئی دہلی: عام آدمی پارٹی کے دہلی ریاستی کنوینر اور کابینی وزیر گوپال رائے نے پیر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہمارے ملک کو زراعت پردھان ملک کہا جاتا ہے۔ ہندستان کے کسان شدید گرمی، کڑی سردی اور بارش میں اپنا خون پسینہ بہا کر اناج پیدا کرتے ہیں اور گاؤں کے پٹواری سے لے کر وزیر اعظم تک سب کو کھانا کھلانے کا کام کرتے ہیں۔
کسانوں نے اپنے مطالبات کے لیے منگل یعنی 13 فروری کو دہلی مارچ کا اعلان کیا ہے۔ اس کو روکنے کے لیے مرکز میں بیٹھی بی جے پی حکومت کی ہدایت پر ہریانہ کی بی جے پی حکومت انگریزوں سے زیادہ آمرانہ رویہ اپنا رہی ہے اور کسانوں کو روکنے کے لیے وہ تمام حربے اپنا رہی ہے جو غلامی کے دور کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔
رائے نے مزید کہا کہ ایسے مناظر شہید بھگت سنگھ، سبھاش چندر بوس، مہاتما گاندھی، ڈاکٹر امبیڈکر سمیت کئی مجاہدین آزادی کی زندگیوں پر مبنی فلموں میں نظر آتے ہیں۔ ان فلموں کو دیکھ کر وہ ظلم ظاہر ہوتا ہے جس کے ساتھ برطانوی حکومت نے ملک کے عوام کو غلام بنانے اور آزادی کے مطالبے کو کچلنے کے لیے تمام حدیں پار کر دیں۔
اگر آج آزادی پسندوں کی روحیں دیکھ رہی ہونگی تو وہ بھی یقین نہیں کر پاتے کہ آج کسان آزاد ہندوستان میں مرکزی حکومت کے وعدوں کے خلاف پرامن طریقے سے دہلی آکر احتجاج کرنا چاہتے ہیں جنہیں روکنے کے لیے سڑکوں پر دیواریں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ انہیں شاید اتنی مضبوط دیوار ہند۔پاک سرحد پر بھی نہیں بنائی گئی ہے۔ وہاں بھی گیٹ کھولا اور بند کیا جاتا ہے۔ پتھر کی دیواروں کے سامنے کیلیں لگائی گئی ہیں۔ بی جے پی حکومت نے ان کیلوں کو زمین میں نہیں ٹھونکا ہے، بلکہ کسانوں کے دلوں میں ٹھونک دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ وہ لوک سبھا انتخابات میں 400 کو پار کرنے جا رہی ہے اور اس لئے کسانوں کے دلوں پر کیل ٹھونک دے گی تو اس سے زیادہ تکلیف دہ اور بدقسمتی کچھ نہیں ہو سکتی۔ یہ منظر دیکھ کر دل میں بڑا درد ہو رہا ہے۔ آخر بی جے پی حکومتوں کو کیا مجبوری ہے کہ وہ کسانوں کو دہلی آنے سے روکنے کے لیے تمام حدیں پار کر رہی ہیں۔
مدر آف ڈیموکریسی کے عنوان سے تقریر کرنا ایک بات ہے اور مادر جمہوریت کی عزت و وقار کا تحفظ کرنا دوسری بات ہے۔ آج بھارتیہ جنتا پارٹی جمہوریت کے تمام اصولوں اور روایات کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور کسانوں کے سینے میں کیل ٹھونکنے کی کوشش کر رہی ہے جسے ملک برداشت نہیں کرے گا۔
عآپ لیڈر نے کہا کہ آخری بار کسانوں نے تین کالے قوانین کے خلاف دہلی تک مارچ کیا تھا، انہیں سرحد پر روک دیا گیا تھا۔ یہ تحریک ایک سال سے زیادہ چلتی رہی۔ وزیر اعظم نے معافی مانگی اور ان تینوں کالے قوانین کو واپس لے لیا اور وعدہ کیا کہ کسانوں کو ایم ایس پی کی ضمانت دی جائے گی۔ کسان ابھی تک اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ ایم ایس پی کی ضمانت دینے والا قانون آئے گا یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دہلی میں دفعہ 144 نافذ، کسانوں کے دہلی مارچ کے پیش نظر لیا گیا فیصلہ
انہوں نے کہا کہ ایک طرف حکومت مذاکرات کا ڈرامہ کررہی ہے اور دوسری طرف ہریانہ کے ہر گاؤں میں پولیس بھیج کر لوگوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر وہ تحریک میں شامل ہوئے تو ان کے پاسپورٹ اور بینک اکاؤنٹس ضبط کرلئے جائیں گے۔ جائیداد کے کاغذات وغیرہ ضبط کر لیں گے۔ پیٹرول پمپس کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایک حد کے اندر کسانوں کو پیٹرول اور ڈیزل فراہم کریں۔ ایسی صورتحال ہندستان میں ایمرجنسی کے دوران بھی نہیں دیکھی گئی۔ آزادی کی جدوجہد کے دوران بھی ایسا نہیں دیکھا گیا۔ (یو این آئی)