85 سالہ محمد ظریف نے کبھی بھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھا، اسے اپنا نام تبدیل کرنا اتنا مہنگا پڑے گا کہ 50 سالہ بیٹے کو غیر ملکی قرار دے کر آسام کے حراستی کیمپ میں قید کر دیا جائے گا اور اس کی وجہ سے پورا خاندان مشکلات و مصائب سے دو چار ہو جائے گا۔
جب چھوٹی سے غلطی کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑا کولکاتاکے پارک سرکس علاقے میں غلام رسو ل مسجد کے قریب ایک بند گلی میں رہنے والے 85سالہ محمد ظریف گزشتہ کئی سالوں سے بیمار ہیں۔
خاندان کی کفالت اور دیکھ بھال اس کے بڑے بیٹے 50سالہ اصغر علی کرتے تھے مگر اس وقت این آر سی میں نام نہ ہونے اور غیر ملکی قرار دیے جانے کی وجہ سے اصغر علی 2017جولائی سے ہی آسام کے حراستی کیمپ میں بندہیں۔
محمد ظریف بیمار ہونے کی وجہ سے بستر سے دوسروں کے سہارا کے بغیر اٹھ بھی نہیں سکتے ہیں۔اپنی چار بیٹیوں کی کفالت کے علاوہ ضعیف محمد ظریف کے کندھوں پر اب اصغر علی کے بچوں کی کفالت کی بھی ذمہ داری آگئی ہے۔
جبکہ گھر کی معاشی حالت یہ ہے کہ محمد ظریف اپنا علاج بھی نہیں کراپارہے ہیں۔محمد ظرف گزشتہ کئی دہائیوں سے کولکاتا میں مقیم ہیں۔
جب چھوٹی سے غلطی کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑا اصغر علی 1980سے ہی آسام میں کار پینٹر کا کام کرتے ہیں، آسام میں مقیم ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنے تمام شناختی کارڈ آسام سے ہی بنالیے تھے۔
مگر والد کے نام تبدیل کرنے کی مصیبت اس اس قدر چکانی ہوگی اس کا علم نہ محمد ظریف کو تھا اور نہ خود اصغر علی کو تھا۔
تین سال قبل 2017 میں ہی اصغر علی کو آسام فورن ٹربیونل نے تکنیکی بنیاد پر غیر ملکی قرار دیدیا تھا۔14جولائی 2017سے ہی اصغر علی گول پارا ڈیٹنشن کیمپ میں قید ہیں۔
اصغر علی کے وکیل امن عبد الودود جو اس وقت بیرون ملک میں ہیں نے بتایا ہے کہ اصغر علی کو تکنیکی بنیادو ں پر ٹربیونل نے غیر ملکی قرار دیا گیاہے۔
کیوں کہ ان کے والد نے چند سال قبل اپنانام تبدیل کرادیا تھا۔انہوں نے کہا کہ جب کسی غیر ملکی کو گرفتار کیا جاتا ہے تو وہ اس اس کے ملک میں بھیج دیا جائے گا مگر جب کسی بھارتی کو ہی غیر ملکی قرار دیدیا جائے گا تو وہ اسے پھر کہاں بھیجا جائے گا؟۔
اس فیصلے کے خلاف اصغر علی نے آسام ہائی کورٹ میں اپیل کی مگر عدالت نے اس فیصلے کو باقی رکھا اور سپریم کورٹ میں بھی اپیل کا کوئی فائدہ نہیں ملا۔10مئی 2019کو چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس سنجیو کھنہ نے اصغر علی کی اپیل کو خارج کردیا۔