این آر سی کے خلاف مغربی بنگال میں مختلف تنظیموں کی جانب سے تحریک جاری ہے۔ بائیں بازو کی جماعتوں کی جانب سے این آر سی اور این آر پی کے خلاف لگاتار مخالفت کی جاری ہے ۔ کولکاتا میں این آر سی کے خلاف سب سے سرگرم تنظیم جوائنٹ فورم اگینسٹ این آر سی کی قیادت میں گزشتہ ایک ماہ سے جاری مارچ آج کولکاتا کے دھرمتلہ پہنچا۔
اس موقع ایک بڑی ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ اس میں سی پی آئی رہنما و جے این یو کے طلیا یونین کے سابق صدر کنہیا کمار، ممتاز سماجی کارکن کویتا کرشنن اور کیرالہ کے سابق آئی اے ایس و سماجی کارکن کنن گوپی ناتھن جنہوں نے کشمیر سے دفعہ 370 کو ہٹانے کے خلاف احتجاج میں استعفی دیدیا تھا، شرکت کی۔
کنہیا کمار نے اس موقع پر ہا کہ آج کل شہریت مذہب کے بنیاد پر دینے کی بات کہی جا رہی ہے۔ اور یہ باتیں دستور ہند کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک میں دراندازوں کی پہچان کرنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں کیا نظام اتنا فرسودہ ہے ۔ درانداز داخل ہو سکتے ہیں لوگوں کو کسی طرح بےوقوف بنایا جا رہا ہے کیا ۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ اس بل کا مقصد واقعی دراندازوں کو نکالنا ہے یا کچھ اور ہے؟
مودی جی یہ کھیل دوسرے ملک سے سیکھ کر آئے ہیں، مسٹر مودی دوسرے ملکوں سے اچھی چیزیں بھی سیکھ کر آ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں پہلے ہی ایک سو تیس کروڑ آبادی ہے۔ اب یہاں کون آئے گا؟ یہاں روزگار نہیں مل رہے ہیں، روزگار کی تلاش میں ہمارے نوجوانوں کو دوسرے ملکوں میں جانا پڑ رہا ہے؟ جو ضروری چیزیں ہیں ان پر بات نہیں کی جارہی ہے بلکہ مختلف فیہ مسائل کو اچھالا جا رہا ہے اور لوگوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔
ہم تعلیم اور صحت پر بنگلہ دیش سے بھی کم خرچ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دو گجراتی آپ کو بانٹنا چاہتا ہیں۔ نئے بل کے مطابق آپ کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ آپ اس ملک کے شہری ہیں یا نہیں؟ ہمارے پاس اگر اپنے آبا و اجداد کے دستاویزات نہیں ہیں تو کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟
این آر سی کے خلاف ریلی میں کنہیا کمار ،کناں گوپی ناتھن اور کویتا کرشنن کی شرکت ہم اس ملک کے شہری ہیں یا نہیں یہ آپ کو ثابت کرنا پڑےگا۔ اس حکومت سے ہمیں تعاون نہیں کرنا چاہئے جو حکومت ہمیں شہری نہیں مانتی ہم اس کو حکومت نہیں مانتے۔ جب آپ کے گھر کوئی این پی آر کے لئے آئے تو ان سے کہیئے کہ وہ حکومت نے جو 15 لاکھ دینے کا وعدہ کیا تھا وہ کہاں ہے، پہلے وہ لے کر آئیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک مارچ نکال دینے اور ایک مظاہرہ کر لینے سے یہ لڑائی نہیں جیتی جا سکتی ہے۔ ہمیں اپنی آزادی کی دوسری لڑائی لڑنی پڑنے گی۔ ہم حکومت کے ساتھ این پی آر پر کوئی تعاون نہیں کریں گے ۔ ہم انہیں کوئی دستاویز نہیں دیں گے۔ اس ملک کی معروضی حقیقیت یہ ہے کہ اس ملک کو ہندو مسلم کے نام پر نہیں بانٹا جا سکتا ہے۔
سابق آئی اے ایس کنان گوپی ناتھن نے کہا کہ ملک میں ایسا وقت آ گیا ہے کہ آپ جیسے ہی کوئی سوال کرتے ہیں آپ ملک دشمن ہو جاتے ہیں ۔ آپ کو طرح طرح کے نام دینے لگتے ہیں جیسے میں نے کشمیر کے بارے میں کہا تھا تو میرے خلاف کیسے لوگ کھڑے ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ بات کسی مسلمان نے کہا ہوتا تو اس کو دہشت گرد قرار دے دیا جاتا۔ آج جو ڈر کا ماحول بن گیا ہے اس میں کچھ بولنے کے لئے سوچنا پڑتا ہے۔ اگر کچھ بولنے کے لئے سوچنا پڑتا ہے تو یہ جمہوریت نہیں ہے کوئی کچھ بھی نہیں بول رہا ہے ۔
ہمیں ابھی ہی بولنا پڑے گا اب نہیں بولیں گے تو کب بولیں گے۔ یہ ملک حکومت سے بہت بڑا ہے لوگ اس لئے بول رہے ہیں کیونکہ وہ ملک کو بچانا ہیں وہ سرکار کے خلاف ہے ملک کے خلاف نہیں ہے۔ اگر ملک میں امن و امان قائم کرنا ہے۔ اگر معیشت کو ٹھیک کرنا ہے تو ملک میں خوشی کا ماحول قائم کرنا پڑے گا ۔
ہم اگر جمہوریت میں سوال کرتے ہیں تو اس کامقصد یہ نہیں ہوتا ہے کہ ہم حکومت کو گردانا چاہتے ہیں بلکہ ہمارا مقصد ہوتا ہے کہ آپ نے جو فیصلہ کیا ہے۔ وہ صحیح ہے یا نہیں میرے اور بھی لوگوں نے استعفی دیا ہے۔ اگر آپ ابھی نہیں لڑیں گے تو ہمارا ملک نہیں بچے گا ۔
آج ایک بار پھر موقعملا ہے کہ ہم اپنے ملک کو بچائیں۔ سماجی کارکن کویتا کرشنن نے کہا کہ آج پارلیمنٹ میں یہ بل پیش کیا جا رہا ہے۔ کولکاتا میں آپ لوگ جو سڑکوں پر اتر کر اپوزیشن کا رول ادا کر رہے ہیں ۔ وہ قابل تعریف ہے ابھی ہمارا اصل کام باقی ہے۔
ہمیں گھر گھر میں جاکر این پی آر، این آر سی اور شہریت ترمیمی بل کیا۔ بہت لوگو۶کو معلوم نہیں ہے ہمیں ابھی سے یہ لڑائی کرنی ہوگی نہیں تو بہت دیر ہو جائے گی۔ کچھ لوگوں کو تو اب تک معلوم بھی نہیں کہ این آر سی اور این پی آر کیا بلا ہے حکومت چاہتی ہے کہ ہم ملک کے اصل مسائل کی طرف نہ دیکھیں اور غیر ضروری مسائل میں پھنسے رہیں اور یہ اور ان کے پونجی پتی مزے میں رہیں ۔