مغربی بنگال کے بانکوڑہ ضلع میں واقع بانکوڑہ یونیورسٹی میں طلباء نے شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف احتجاج کیا جس میں عام لوگوں نے شرکت کی ۔
ریسرچ اسکالر جو خواتین کے دھرنے میں پہلے دن سے شامل ہیں نے کہا کہ یہ دھرنا صرف ایک کمیونیٹی اور اس کیلئے نہیں ہے بلکہ یہاں بڑی تعداد میں جادو پور یونیورسٹی، کلکتہ یونیورسٹی،عالیہ یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیوں کی طالبہ شریک ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ بھارت کی تحریک آزادی میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
بانکوڑہ یونیورسٹی میں سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاج انہوں نے کہا کہ مستقبل میں جب بھی ہندوستان کی تاریخ لکھی جائے تو شہریت ترمیمی ایکٹ،این آر سی اور این آر پی کے خلاف یونیورسٹیوں کے طلباء کی تحریک کو سنہرے لفظوں میں لکھا جائے گا اور اب خواتین بھی سامنے آگئی ہیں۔
سماجی کارکن سپنا چٹرجی جو ناڑی شکتی اور دیگر مختلف تنظیموں سے وابستہ ہیں نے کہا کہ میں نے آسام میں کام کیا ہے، وہاں دیکھا ہے کہ کس طریقے سے این آر سی سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ ماں کو اولاد سے دور کردیا جائے۔
بانکوڑہ یونیورسٹی میں سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاج انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں این آر سی کا نفاذ کسی بھی حادثے سے کم نہیں ہوگا۔ملک کو تباہ و بربادکردے گا۔کروڑوں خواتین کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس سے صرف مسلمان متاثر ہوں گے یہ ان کی غلط فہمی اس سے ہندوستا ن کا ہرایک شہری متاثر ہوگا اور اس کی عام شہریوں کو چکانی ہوگی۔
دھرنے میں ہرروز شرکت کرنے آنے والی اپرنا بتاتی ہیں کہ حکومت نے شہریت ترمیمی ایکٹ میں مسلمانوں کو نام شامل کرکے دستور کے روح پر حملہ کیا ہے اور اس کے نقصانات مستقبل خطرناک ہوں گے اوریہ ایکٹ ایک نظیر بن جائے گی۔اس لیے ہم لوگ اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔