بھارتی فلموں نے بھی اردو کو گھر گھر پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔ کلکتہ گرلس کالج اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی جانب سے مشترکہ طور پر منعقد سیمینار میں ہندوستانی فلموں میں اردو زبان و ادب پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔
جب خاموش فلموں سے بولتی فلموں کی طرف بھارتی فلموں کا سفر شروع ہوا جس کی جڑیں 19 ویں صدی کے پارسی تھیٹر سے جا ملتی ہیں۔جب پارسی تھیٹر پارسی ثقافت کا دبدبہ تھا۔ان تھیٹروں کی زبان اردو ہوا کرتی تھی۔
پارسی اردو تھیٹر میں ہی سنہ 1931 میں بھارت کی پہلی بولتی ہوئی فلم "عالم آرا" کی محرک بنی تھی۔عالم آرا پارسی ڈرامے پر مبنی فلم تھی جس میں پہلی بار نغمہ اور رقص کا منظر پیش کیا گیا تھا۔
روز اول سے ہی ان بولتی فلموں کی اہم ترین زبان تھی۔اس میں فارسی کے اصطلاحات، ردیف قافیہ میں مکالمے کی ادائگی نے ڈرامائی ماحول بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
اس کے بعد اردو شاعری نے ان تھیٹروں میں اپنی جگہ بنالی اور مکالمے کا اہم جز بن گئی۔اردو شاعری ان ڈراموں کے لیے بہت موزوں ثابت ہوئیں، جس کے بعد اردو شاعری عام لوگوں کے دسترس میں آ گئی اور ان سامعین کو محظوظ کرنے لگی جن کے لیے موسیقی ان کے ثقافت کا حصہ تھی۔
موسیقی کی طرح ہی شاعری بھی اپنے فنی و ثقافتی خیالات و احساسات کے اظہار کا اہم زریعہ ہے۔یہاں تک کہ ملک کی جنگ آزادی میں بھی شاعرانہ رویوں کی غماز رہی ہے۔
اردو شاعری اپنی غنائیت اور روایتی ثقافت کی وجہ سے روز اول سے بھارتی سنیما کا حصہ بن گئی، چونکہ اردو کو فنی اظہارات کے لیے رابطے کی زبان کی حیثیت حاصل تھی۔اس لیے اردو شاعری نغمہ نگاری لے لیے نا گزیر ہوگئی۔
بھارتی فلموں کے دو اولین نغمہ نگار کیدار شرما اور دینا ناتھ مدھوک نے بھارتی سنیما اور اور شاعری میں موجود مطابقت کو علامتی بنا دیا۔بھارتی سنیما میں 1940 سے لے کر 1970 کی دہائی اردو زبان کے لیے سنہرا دور رہا۔
بھارتی سنیما اور اردو زبان و ادب کے عنوان سے کلکتہ گرلس کالج شعبہ اردو اور قومی کونسل برائے فروغ اردو کے اشتراک سے مغربی بنگال اردو اکادمی کے مولانا آزاد آڈیٹوریم میں منعقد سیمینار بعنوان" ہندوستانی فلموں اردو زبان و ادب " کالج کی پرنسپل ڈاکٹر ستیہ اپادھیائے نے ٹیلی کال کے ذریعے سامعین کو مخاطب کیا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔