ملک کی آزادی کے بعد مسلمانان کولکاتہ کی جانب سے قائم ہونے والا واحد مسلم ادارہ 'ملی الامین گرلس کالج' کے تئیں حکومت کی بے رخی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شہر کی سرکردہ شخصیات نے اعلان کیا ہے کہ 'ملی الامین گرلس کالج' کو حق دلانے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کے ساتھ دیگر تمام جمہوری راستے اختیار کئے جائیں گے۔
ملی گروپ کی جانب سے بلائی گئی 'ورچوئل میٹنگ' کے شرکاء نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ کالج انتظامیہ کا حکومت کی سرپرستی ختم کرنے اور کالج کی عمارت میں اسکول کھولنے اور پرائیوٹ سطح پر کالج کھولنے کا فیصلہ جلد بازی پر مبنی ہے۔
چوں کہ یہ کالج عام مسلمانوں کے چندے سے قائم کیا گیا ہے اس لیے کوئی بھی فیصلہ لینے سے قبل ممبران کے علاوہ مسلمانوں کی سرکردہ شخصیات کی رائے اور مشورے کو بھی مد نظر رکھا جائے۔
میٹنگ کے داعی اور مشہور سماجی کارکن حاجی عبدا لعزیز نے کہا کہ 'گزشتہ تین برسوں سے وہ اپنے طور پر 'ملی الامین کالج' کے اقلیتی کردار کی بحالی کے لیے جدو جہد کررہے ہیں۔ اس معاملے میں تضاد ہی تضاد ہے ایک جانب حکمراں جماعت کے مسلم لیڈران الگ بات بول رہے ہیں اور دوسری جانب ریاستی وزیر تعلیم کا موقف کچھ اور ہی ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں کالج کو اقلیتی کردار دینے کے حق میں نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کالج کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی دباؤ سے آزادی حاصل کی جائےکیوں کہ سیاسی لیڈروں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں وہ کوئی بھی قدم سیاست کے پیش نظر ہی کرتے ہیں۔ اب تک جوکچھ کمی رہی ہے اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی ہے۔
حاجی عبدالعزیز نے کہا کہ 'کالج کے حقوق کی بازیابی اور اقلیتی کردار کی بحالی کے لیے مسلمانان کولکاتہ کو ایک صف پر آنا ہوگا اور اس کے لیے حکمت عملی بنانی ہوگی۔
اس ورچوئل میٹنگ میں کالج انتظامیہ اور سرپرست آرگنائزیشن ملی ایجوکیشن کے ممبران شاہنواز عارفی اور محمد نورالدین بھی شریک تھے۔ ان دونوں ممبران نے یقین دہانی کرائی کہ ملی ایجوکیشن آرگنائزیشن عام مسلمانوں کے ساتھ ہے اور اگر شہر کے مسلمانوں کی یہ رائے ہے کہ اس معاملے میں ایک بار پھر عدالت میں اپیل کی جائے تو ملی آرگنائزیشن اس کے لیے تیار ہے۔
حاجی فاؤنڈیشن کے صدر حاجی مختار نے ماضی کی داستان پر تبصرہ کئے بغیر کہا کہ 'وقت کافی گزرچکا ہے اس لیے سیاسی پہنچ کی بجائے مسلمانوں کو متحد ہوکر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اور ہمیں ایک ہی صف میں آنا ہوگا اور یہ حکومت کو باور کرانا ہوگا کہ مسلمان کولکاتہ اس معاملے میں سنجیدہ ہیں۔
سماجی کارکن حسین رضوی جو گزشتہ کافی عرصے سے 'ملی الامین کالج' کے لیے تحریک چلارہے ہیں نے کہا کہ 'ایک جانب جہاں کالج کے اقلیتی کردار کو بحال کرنے کی جدو جہد کرنی ہے وہیں دوسری جانب جو تعلیمی سلسلہ بند ہوتا جا رہا ہے اس کو بحال کرنا ضروری ہے۔
میٹنگ کے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جمہوری طریقے سے 'ملی الامین کالج' کی بحالی کے لیے تحریک چلائی جائے گی چوں کہ سپریم کورٹ سے 'ملی الامین کالج' کو اقلیتی کردار مل چکا ہے لیکن حکومت اس کو تسلیم نہیں کررہی ہے اس لیے عدالت کے فیصلے کو تسلیم نہیں کئے جانے پر اپیل کی جائے گی اور دیگر جمہوری ذرائع، عوامی مہم اور وزیراعلیٰ سے رابطہ وغیرہ کی بھی کوشش کی جائے گی اور اگلی میٹنگ میں اس پر جلد ہی فیصلہ کرلیا جائے گا۔
ملی ایجوکیشن آرگنائزیشن کے ممبران نے پوری صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی شہ پر ہی موجودہ ٹیچرس انچارج ممبران پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں نیز اس وقت کالج میں طالبات کی تعداد کیا ہے اور دیگر تعلیمی سرگرمیوں سے متعلق بتانے کو تیار نہیں ہے۔
حاجی عبد العزیز نے بتایا کہ 'کولکاتہ شہر کے چند سرکردہ افراد نے عدالتی کارروائی پر آنے والے اخراجات کو برداشت کرنے کی پیش کش کی ہے۔ میٹنگ میں وکلا کا پینل تیار کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔