اس لیے مسلمانوں کو اپنے حصار سے نکل کر ملک وقوم کی فکرکرنی چاہیے، ہماری توجہ اس بات پر ہونی چاہیے ہم زیادہ سے زیادہ ملک کو نفع پہنچاسکیں۔
مولانا مدنی نے کہا کہ بھارت کی عوام مسلم دشمن نہیں ہے بلکہ ایسے لوگوں کی تعداد 10فیصد سے کم ہے۔ ان کے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو نہ مسلمانوں کے دشمن اور نہ ہی دوست بلکہ خالی الذہن ہیں۔
انہیں مسلمانوں سے متعلق زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ گزشتہ 70برسوں میں یا پھر اس سے قبل برادران وطن کے اس طبقے تک پہنچنے اور ان کا دل جیتنے کے لیے کس سطح پر کوشش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ مسلمانوں کی ذمہ دار نہیں تھی کہ وہ برادران وطن کے اعتماد کو حاصل کرنے کیلئے کوشش کریں۔ ان غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا ازالہ کیا جائے جسے مسلمانوں کے خلاف منظم طریقے سے پھیلایا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ دوسروں پر سوال اٹھانے سے زیادہ ضروری ہے کہ اپنا محاسبہ کیا جائے۔
مولانا نے کہا کہ ہجومی تشدد کے واقعات ناقابل قبول ہیں اور ہم سب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے مگر سوال یہ ہے کہ اس کا جواب کس طریقے سے دیا جائے کیا نفرت کا جواب ہم بھی نفرت وطاقت سے دیں؟۔