کولکاتا:مغربی بنگال کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس کے جنرل سیکریٹری ابھیشیک بنرجی نندی گرام میں بی جے پی اور ترنمول کانگریس کے حامیوں کے درمیان ہوئے تصادم میں زخمیوں کو دیکھنے ایس ایس کے ایم گئے تھے۔ بعد میں نامہ نگارو ں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے عدلیہ کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کلکتہ ہائی کورٹ کے جج راج شیکھر منتھا سماج دشمنوں کو تحفظ دے رہے ہیں۔
ابھیشیک نے یہ بھی کہا کہ جج راج شیکھر منتھا یہ ایک جج ہے۔شبھندو نے ادھیکاری کو محفوظ رکھا ہے۔ اگر وہ مستقبل میں کوئی غلط کام کرتا ہے تو اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی ہے۔ان کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی ہے۔ابھیشیک بنرجی کے اس بیان کے بعد سے ہی یہ بحث تیز ہوگئی ہے کہ کیا کوئی منتخب رکن اسمبلی اور رکن پارلیمننٹ عدلیہ یا ججز کے بارے میں ایسے تبصرے کر سکتا ہے؟
سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس اشوک گنگوپادھیائے نے کہاکہ اگر کوئی رکن پارلیمنٹ عدلیہ کے بارے میں اس طرح کے تبصرے کرتا ہے تو میں کیا کہ سکتا ہوں ، میرے لئے ابھیشیک کے الفاظ کا جواب دینا مناسب نہیں ہے۔ کیا کوئی قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے؟ جواب میں ریٹائرڈ جج نے کہا کہ انہیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہائی کورٹ اس معاملے کو توہین کے طور پر لیتی ہے یا نہیں۔ اس پر تبصرہ کرنا میرے لیے مناسب نہیں
کلکتہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس دیباشیس کرگپتا نے کہاکہ توہین عدالت کے قانون کے دو پہلو ہیں۔ ایک سول ہے، دوسرا فوجداری۔ اگر جج کے کسی حکم پر عمل نہیں کیا جاتا ہے یا حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو متعلقہ جج توہین عدالت کے دیوانی کارروائی کرسکتی ہے۔ اگر کسی کے بیان سے عدلیہ یا ججز کی توہین ہو رہی ہے تو عدالت فوجداری مقدمہ دائر کر سکتی ہے۔ ہائی کورٹ کے معاملے میں، اس طرح کے کیسز زیادہ تر چیف جسٹس کے ڈویژن بنچ کے زیر سماعت ہوتے ہیں۔