دریائے گنگا کے کنارے بنے گھاٹوں کو ہندؤں کے عقیدے کے مطابق مقدس سمجھا جاتا ہے، ان گھاٹوں پر دور دراز علاقوں سے ہندو مذہب کے پیروکار پوجا اور غسل کرنے آتے ہیں۔ ان میں سے منیکر کے گھاٹ پر میتوں کو نذرآتش کیا جاتا ہے اور آخری رسومات ادا کی جاتی ہے۔
ہندو مذہب کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ جس شخص کی موت بنارس میں ہوجائے یا اس کی آخری رسومات بنارس میں ادا کی جائے تو اسے دوسرے جنم سے آزادی مل جاتی ہے۔
منیکر کا گھاٹ پر کئی ایسے افراد بھی موجود ہیں جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں اور خود کو موت کا فوٹوگرافر کہتے ہیں، انہیں میں سے رگھویر پانڈے بمشکل ای ٹی وی بھارت سے بات کرنے کے لیے تیار ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ اب گھاٹ پر فوٹوگرافی ترک کر دیا ہوں، اس کی کئی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ موبائل کے ایجاد سے فوٹوگرافی ختم ہوچکی ہے، کمائی پر خاص اثر پڑا ہے۔
دوسری وجہ یہ بتایا کہ میتوں کی فوٹوگرافی میں غم و دکھ کا ماحول رہتا تھا۔ رگھویر نے کہا کہ فوٹوگرافی ایک پیشن ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔