لکھنؤ: اترپردیش میں بجلی ملازمین کی ہڑتال کی وجہ سے بجلی پیداکرنےوالے ہاوس میں پروڈکشن متاثر ہوا ہے جس کی سیدھا اثر ریاست کے کئی علاقوں میں بجلی سپلائی کے ساتھ ساتھ پانی سپلائی پر بھی پڑا ہے۔ حکومت نے سراپا احتجاج ملازمین پر ایمسا اور این ایس اے کے تحت کاروائی کرنے کا انتباہ دیا ہے وہیں ہائی کورٹ نے بھی ہڑتال کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے اسے توہین عدالت قرار دیا ہے۔باوجود اس کے ہڑٹالی ملازمین کے رویہ میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے۔ ملازمین کے لیڈروں کی دلیل ہے کہ وہ بھی ہڑتال کے حامی نہیں ہے لیکن وزیر توانائی گذشتہ سال دسمبر میں ملازمین کے ساتھ ان کے مطالبات کے ضمن میں کئے گئے سمجھوتے سے مکررہے ہیں۔ انہوں نے اس معاملے میں وزیر اعلی سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔
دریں اثنا، اوبرا تھرمل پاور پلانٹ کے 200 میگاواٹ کے پانچ یونٹس میں کام بند ہونے کی وجہ سے بجلی کی فراہمی مزید پیچیدہ ہونے کا خدشہ ہے۔ ملازمین رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت نے مجوزہ اوبرا ڈی پلانٹ کو نیشنل تھرمل پاور کارپوریشن کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو انہیں کسی صورت قبول نہیں۔ اس سے قبل اوبرا سی کے 660 میگاواٹ کے دو یونٹ نجی شعبے کے حوالے کیے جا چکے ہیں۔ حکومت کی نجکاری کی پالیسی درست نہیں۔ حکومت کو حال ہی میں کئے گئے اپنے فیصلے واپس لینے چاہئے۔ پاور کارپوریشن کے انجینئرز اور ملازمین اپنے جنریٹنگ پلانٹس کو چلانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہیں ہڑتالی ملازمین کو ایسما کا خوف بھی ستا رہا ہے۔ ملازمین کا خیال ہے کہ ESMA کے تحت کارروائی ان کے کیریئر کو متاثر کرے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیر اعلیٰ کی مداخلت سے صورتحال پر جلد قابو پالیا جائے گا۔