کورونا وائرس جس نے ہر ایک فرد کے دل و دماغ میں خوف پیدا کر دیا ہے۔ اس وبائی بیماری سے ہر روز ہزاروں لوگ موت کا نوالہ بن رہے ہیں۔ دوسری طرف لاکھوں لوگ بھوک و پیاس سے زندگی اور موت کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس مشکل حالات میں لکھنؤ کی واحد بریانی نامی ہوٹل والے بھوکوں کو کھانا کھلا کر خلق خدا کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں۔
خدمت خلق کا جذبہ تاکہ کوئی بھوکا نہ سوئے کورونا وبا کے مد نظر اترپردیش سرکار نے 17 مئی تک لاک ڈاؤن نافذ کر دیا ہے تاکہ کورونا وائرس کو قابو کیا جا سکے، سرکار اس فیصلے سے سب سے زیادہ متاثر وہ لوگ ہوئے ہیں جو ہر روز مزدوری کر پیٹ کی بھوک کو بجھا رہے ہیں۔ بارہ بنکی کی رہنے والی رضوانہ بتاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ گذشتہ دس برسوں سے لکھنؤ میں مزدوری کر رہی ہیں۔ اینٹ بھٹہ میں مزدوری کرتی ہیں اور گھروں کے تعمیراتی کام میں بھی زندگی کی جدوجہد کررہی ہیں۔ وہ بتاتی ہے کہ لاک ڈاؤن کے پہلے سے ہی کام بند ہے۔ ہم لوگ اس امید میں لکھنؤ میں ہیں کہ شاید کہیں کام مل جائے اور ہماری آمدنی کا ذریعہ بن جائے۔ حالات یہ ہوگئے ہیں کہ ہمیں نہ راشن ملتا ہے اور نہ ہی کھانا، مجبوری میں بھوکے پیاسے بچوں کے ساتھ چوک چوراہوں پر رہنے کو مجبور ہیں۔
واحد بریانی والے روزآنہ ہم لوگوں کو کھانا دیتے ہیں۔ رضوانہ کی طرح زرینہ بھی بارہ بنکی کی رہنے والی ہیں اور وہ بھی اپنے کنبے کے ساتھ لکھنؤ میں مزدوری کرتی ہیں۔ انہوں نے بتائی کہ ہمیں ہر جگہ سے مار پیٹ کر بھگایا جاتا ہے۔ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کورونا وائرس پھیلا ہے اور تم لوگوں سے ہمیں بیماری ہو سکتی ہے۔ اس لیے میں اپنے بچوں کے ساتھ سڑک کے کنارے کبھی یہاں تو کبھی وہاں رات بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے واحد بریانی کے ذمہ دار عابد علی قریشی نے کہا کہ گذشتہ سال سے ہم لوگ ضرورت مندوں کو کھانا کھلا رہے ہیں اور اس سال بھی جب سے لاک ڈاؤن نافذ ہوا ہے۔ روزانہ کھانا تقسیم کر رہے ہیں۔ خدمت خلق سے ہمارے اندر جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ شہر کے یہ حالات ہیں کہ لوگوں کے پاس پیسہ ہے لیکن کھانے کو نہیں ملتا لہذا آپ امید کر سکتے ہیں کہ غریب مزدوروں کو کون مدد کر ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ ہم نے غریبوں اور ضرورت مندوں کو کھانا تقسیم کر رہے ہیں تاکہ انہیں بھوکے پیٹ رات نہ گزارنی پڑے۔
واحد بریانی لکھنؤ کی مشہور بریانی ہے۔ لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے سبب فی الحال ہوٹل بند ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ لوگ غریبوں کو بھی وہی بریانی کھلاتے ہیں، جو ان کے ہوٹل میں بڑے بڑے لوگ کھانے آتے ہیں۔