تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکنتو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا۔
مجاز کی شاعری میں ایک ایسی کسک ہے، جسے پانا مشکل ہے، ان کی شاعری ان کی ذاتی زندگی اور خیالات کی عکاسی کرتی ہے۔
مجاز لکھنوی 19 اکتوبر سنہ 1911 کو قصبہ رودولی ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ نام اسرارالحق اور مجاز تخلص تھا، حصول تعلیم کے لیے لکھنو آئے اور یہاں سے ہائی سکول کیا۔
سنہ 1935 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کرکے سنہ 1936 میں دہلی ریڈیو سٹیشن سے شائع ہونے والے 'آواز' کے پہلے مدیر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
اسرارالحق مجاز کا نوابی شہر لکھنؤ سے گہرا تعلق رہا، یہاں کی مخصوص تہذیب اور شعر و ادب کی سرزمین ہونے پر ان کو لکھنؤ سے اس قدر لگاؤ تھا کہ وہ اپنے تخلص میں 'لکھنؤ' جوڑ لیا اور 'مجاز لکھنوی' کے نام سے مشہور و مشہور ہوگئے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سکالر عاطف حنیف نے بتایا کہ اردو زبان، اردو شاعری میں بہت سارے لوگ گزرے ہیں لیکن اسرارالحق مجاز کا الگ ہی مقام ہے کیونکہ انہیں ایک خاص شرف حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج مجاز کو پوری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا اور سنا جاتا ہے کیونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ترانہ انہوں نے ہی لکھا تھا۔
انہوں نے کہا کہ آج دنیا کے ہر خطے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر کوئی بھی پروگرام ہو اس میں ان کا ترانہ پیش کیا جاتا ہے۔
عاطف حنیف نے بتایا کہ مجاز کی شاعری میں دو الگ الگ طرح کے پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں، رومانوی اور انقلاب۔ مجاز کی شاعری میں ایک ایسی کسک ہے، جسے پانا مشکل ہے۔
رومانیت کو ان کے کلام میں مرکزیت حاصل ہے، رومانس کے ساتھ جتنی تڑپ مجاز نے پیدا کی اتنی شاید ہی کسی کے نصیب میں آئی ہو۔
انہوں نے کہا کہ مجاز اپنے فن کے ذریعے اپنے افکار کو پیش کیا ہے، مجاز کی شاعری میں جو لطف رومانیت سے پیدا ہوا ہے اس کا کوئی جواب نہیں۔
مجاز ہمیشہ خواتین کے حلقے میں بے حد مقبول اور ہر دل عزیز تھے۔
عاطف حنیف نے کہا کہ آج پوری دنیا خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہے لیکن مجاز لکھنوی نے آج سے تقریباً 90 برس پہلے خواتین کے لیے بڑی بات کہہ دی تھی۔
انہوں نے لکھا کہ
تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
تیرے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے
اگر تو ساجد بیداری اٹھا لیتی تو اچھا تھا
تیری نیچی نظر خود تیری عصمت کی محافظ ہے
تو اس نشتر کی تیزی آزمانی لیتی تو اچھا تھا
مجاز کی نظم 'نذر علی گڑھ' مشہور دانش گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ترانہ کا حصہ ہے، مثلاً