اردو

urdu

ETV Bharat / state

اے ایم یو 15 دسمبر کے تشدد کی اگلی سماعت 14 دسمبر کو - اترپردیش نیوز

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزشتہ برس 15 دسمبر کی شب میں پیش آئے واقعے کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں درج مقدمہ کی آخری سماعت 28 اکتوبر کو تھی، لیکن پولیس انتظامیہ کی جانب سے اپنا حلف نامہ داخل نہیں کیا، جس کے بعد عدالت نے اگلی سماعت کی تاریخ 14 دسمبر کو دی ہے۔

advocate asad hayat
وکیل اسد حیات

By

Published : Nov 28, 2020, 9:44 PM IST

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج ہوئے تھے، جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء و طالبات بھی شامل تھے۔

دیکھیں ویڈیو

گزشتہ برس 15 دسمبر کی شب میں جامعہ کے طالب علم کی موت کی خبر جب اے ایم یو میں جب آئی تو اے ایم یو کے طلباء اکٹھا ہوکر باب سید کی جانب جانے لگے، جس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت سے پولیس کیمپس میں داخل ہوئی۔

جس کے بعد طلبہ اور پولیس کے درمیان تشدد ہوا، جس میں پچاس سے زیادہ طلبہ اور پولیس کے جوان بھی زخمی ہوئے۔ علاج کے دوران دو اے ایم یو طلبہ کے ہاتھ بھی کاٹنے پڑے۔

گزشتہ برس 15 دسمبر کی شب میں پیش آئے واقعہ میں 26 طلباء کو حراست میں لیا گیا، جس کے خلاف دو مقدمات درج کیے گئے۔ ایک دفعہ 482 کے تحت اور دوسرا عدلیہ تحقیقات کرانے کے لیے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے وکیل اسد حیات نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ الہ آباد ہائی کورٹ میں دو مقادمات چل رہے ہیں، ایک مقدمہ جو 12 لوگوں کی طرف سے ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اس کی عدلیہ تحقیقات کرائی جائے اور دوسرا مقدمہ جو 26 طلباء حراست میں لیے گئے تھے۔

15 دسمبر کی شب کو جس کے خلاف پولیس نے جو چارج شیٹ داخل کی ہے اس کو کوئش (quesh) کرنے کے لئے انہوں نے کورٹ میں درخواست ڈالی ہے دفعہ 482 کے تحت میں۔

فی الحال دفعہ 482 میں جو کارروائی ہوئی ہے، گزشتہ 28 تاریخ کو پولیس انتظامیہ کی جانب سے جو اپنا کاؤنٹر ایفیڈیوٹ فائل کرنا تھا جو انہوں نے فائل نہیں کیا اب اس میں 14 دسمبر تاریخ لگی ہوئی ہے۔

اور دوسرا مقدمہ جو جنوری ماہ میں ہوا تھا، عدلیہ تحقیقات کے لئے اس میں ابھی کوئی تاریخ نہیں ہے اس کو لسٹ کرانے کی ہم جلد کوشش کریں گے۔

پولیس نے جو چارج شیٹ ابھی فائل کی ہے پہلے عارضی چار شیٹ آئی تھی وہ 26 لوگوں کے خلاف تھی اس میں ہمارا کہنا یہ ہے کہ قانون کے مطابق جو حراست میں لینے کا طریقہ ہے اس کے مطابق کام نہیں کیا گیا۔

جب بھی کوئی شخص حراست میں لیا جاتا ہے تو حراست کی جگہ ہی گرفتاری کی میمو بنائی جاتی ہے۔ اس مقدمہ میں جو گرفتاری کی میمو بنائی گئی اس پر ایف آئی آر نمبر 703 ڈالی گئی ہے اور ایف آئی آر 16 دسمبر صبح 8:45 پر ہوئی ہے۔ تو اگر 703 نمبر کی ایف آئی آر 16 دسمبر کو صبح درج ہوتی ہے تو رات کو 11:45 پر جن لوگوں کو حراست میں لے لیا پولیس بتاتی ہے وہ غلط ثابت ہو جاتے ہیں۔

اصل میں ہوا یہ تھا کہ رات میں انہوں نے مختلف جگہوں سے وہ لڑکے ہوسٹل میں، مہمان خانہ، سڑک پر کیمپس کے اندر سے وہاں سے ان لوگوں کو مارتے پیٹتے لے گئے تھے اور ان کو دکھا دیا گیا کہ ہم لوگوں نے یونیورسٹی باب سید سے ان کو حراست میں لیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر رات میں آپ نے ان کو حراست میں لیا تھا تو 15 دسمبر کو 11:45 پر تو رات میں تین پولیس اسٹیشن میں لے جانے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ آپ نے زخمی لوگوں کو تین الگ الگ پولیس اسٹیشن لے گئے اور اپنے الگ الگ مقامات سے ہی ان کو حراست میں لیا تھا۔

مزید پڑھیں:

آل انڈیا امامس کونسل کا پی ایف آئی کے حق میں بیان

وکیل اسد حیات نے مزید بتایا تو پھر یہ عمل صبح 8:45 کا دکھانا، گرفتاری میمو صبح کی ہونا یہ پوری طرح سے غیر قانونی ہے اور پولیس کے اس جھوٹ کو ثابت کر دیتا ہے، جس سے وہ کہتے ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو 15 دسمبر کی شب میں 11:45 پر حراست میں لیا تھا کہانی جھوٹی ثابت ہو جاتی ہے اور یہی ہمارا مقدمہ ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details