ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان مولانا یعسوب عباس نے کہا کہ، 'یہ کوئی نہ سمجھے کہ محرم ہماری وجہ سے ہوتا ہے یا محرم کی تیاریاں ہم کرتے ہیں'۔
جب ہم موجود نہیں تھے تب بھی تعزیہ داری ہوتی تھی اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ حالانکہ اس وقت ہم موجود نہ ہوں گے، تب بھی محرم الحرام بدستور جاری رہے گا۔'
شیعہ پرسنل لاء بورڈ بورڈ کے ترجمان نے کہا کہ، 'محرم الحرام کے مد نظر حکومت نے جو گائیڈ لائن جاری کی ہے، اس پر ہمیں 'اعتراض' ہے۔
ہمیں اعتراض اس بات کا ہے کہ حکومت کے ذمہ داران سے ہم نے بات چیت کی اور شیعہ پرسنل لا بورڈ نے خط بھی لکھا لیکن مثبت جواب نہیں مل پایا۔'
انہوں نے کہا کہ، 'پورے بھارت میں خاص طور پر اتر پردیش میں جتنی بھی مرکزی مجالس ہوتی ہیں، وہ سبھی ہوں۔ اس میں سماجی دوری کا خاص خیال رکھا جائے گا، ساتھ ہی تعزیہ داری بھی ہونا چاہیے۔
اگر آپ شادی میں 50 لوگوں کے شامل ہونے کی اجازت دے سکتے ہیں اور میت اٹھ سکتی ہے تو کیا حسین ابن علی کا تعزیہ نہیں اٹھ سکتا؟
لہذا تعزیہ لازمی طور پر اٹھنا چاہیے۔ ہمیں اس بات سے غرض نہیں ہے کہ 50 لوگ شامل ہوں گے یا اس سے زائد۔ تعزیہ داری خوشی کا تہوار نہیں بلکہ یہ ایک غم کا مہینہ ہے۔'
مولانا یعسوب عباس نے کہا کہ، 'تعزیہ داری میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو مذاہب کے لوگ بھی عقیدہ رکھتے ہیں۔ وہ لوگ بھی اپنے گھروں میں یکم محرم سے دسویں محرم تک تعزیہ رکھتے ہیں۔ اس لیے مرکزی اور ریاستی حکومت اس اہم ترین معاملے پر غور کرے اور یوم عاشور 10 محرم کو تعزیہ اٹھانے کی اجازت دے۔'
مزید پڑھیں:
انہوں نے کہا کہ، 'ہم نے وزیراعظم دفتر، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی اور یو پی حکومت کے ذمہ داران سے اس تعلق سے بات کی ہے۔ ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ یوم عاشورہ کو تعزیہ اٹھانے کی اجازت مل جائے۔'