لکھنؤ: اردو کے معروف شاعر منور رانا کا اتوار کی رات لکھنؤ کے ایس جی پی جی آئی اسپتال میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔ وہ 71 سال کے تھے۔ منور رانا گزشتہ کئی ماہ سے طویل علالت سےجوچھ رہے تھے اور ایس جی پی جی آئی اسپتال میں زیر علاج تھے۔ وہ کینسر، گردے اور دل کی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ رانا کی بیٹی سمیہ رانا نے بتایا کہ ان کے والد کو پیر (15 جنوری) کو سپرد خاک کیا جائے گا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے پیر کے روز معروف شاعر منور رانا کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا اور کہا کہ انہوں نے اردو ادب اور شاعری میں خدمات انجام دیں ہیں۔ انہوں نے ایکس پر کہا کہ، "شری منور رانا جی کے انتقال سے دکھ ہوا ہے۔ انہوں نے اردو ادب اور شاعری میں بھرپور تعاون کیا ہے۔ ان کے اہل خانہ اور مداحوں سے تعزیت۔ ان کی روح کو سکون ملے۔"
رانا کے بیٹے تبریز رانا نے کہا، "وہ بیماری کی وجہ سے 14 سے 15 دن تک اسپتال میں داخل رہے۔ انہیں پہلے لکھنؤ کے میدانتا اور پھر ایس جی پی جی آئی میں داخل کرایا گیا جہاں اتوار کی رات تقریباً 11 بجے انہوں نے آخری سانس لی۔" منور رانا کے پسماندگان میں اہلیہ، چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔
26 نومبر 1952 کو اتر پردیش کے رائے بریلی میں پیدا ہونے والے منور رانا اردو ادب اور شاعری، خاص طور پر ان کی غزلوں کے لیے ان کی خدمات کے لیے بڑے پیمانے پر پہچانے جاتے تھے۔ ان کا شاعرانہ انداز اس کی رسائی کے لیے قابل ذکر تھا، کیونکہ وہ فارسی اور عربی سے گریز کرتے ہوئے اکثر ہندی اور اودھی الفاظ کو اپنی شاعری میں شامل کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ منور رانا کا شاعرانہ انداز بھارتی سامعین کے دلوں کو چھو جاتا تھا۔
منور رانا کی غزل 'ماں' مشہور ترین تصانیف میں شمار کی جاتی ہے جو اردو ادب کی دنیا میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ اپنے پورے کیریئر کے دوران، منور رانا کو ان کی شاعری کے مجموعہ 'شہدابہ' کے لیے 2014 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ تاہم، انہوں نے تقریباً ایک سال بعد ملک میں بڑھتے ہوئے عدم تشدد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ ایوارڈ واپس کر دیا۔
انہیں جو دیگر اعزازات ملے ان میں امیر خسرو ایوارڈ، میر تقی میر ایوارڈ، غالب ایوارڈ، ڈاکٹر ذاکر حسین ایوارڈ، اور سرسوتی سماج ایوارڈ شامل ہیں۔ ان کی تخلیقات کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔