لکھنؤ: اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے پریاگ راج میں اسپتال کے باہر سابق رکن پارلیمان عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کے قتل کو 'جرم کی انتہا' قرار دیا ہے۔ اکھلیش نے قتل کے بعد ایک ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے سوال کیا کہ پولیس کی حفاظت کے درمیان کسی کو کیسے مارا جا سکتا ہے؟ اکھلیش نے ٹویٹ کر کے لکھا کہ یوپی میں جرائم اپنے عروج پر پہنچ گئے ہیں اور مجرموں کے حوصلے بلند ہیں۔ جب پولیس کے گھیرے میں کھلے عام فائرنگ کر کے کسی کو مارا جا سکتا ہے تو پھر عام لوگوں کی سکیورٹی کا کیا ہوگا؟ جس کی وجہ سے عوام میں خوف کا ماحول پیدا ہو رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر ایسا ماحول بنا رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی عتیق و اشرف کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر ردعمل کا دور دورہ ہے۔ اکھلیش کے ساتھ اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اور ایم پی اسد الدین اویسی نے بھی اس قتل عام پر سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ جب یہ قتل عام ہوا تو عتیق اور اشرف پولیس کی حراست میں تھے۔ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں۔ انہوں نے اس واقعہ کو یوگی حکومت کے لا اینڈ آرڈر کی ناکامی قرار دیا اور کہا کہ انکاؤنٹر راج کا جشن منانے والے بھی اس قتل کے ذمہ دار ہیں۔
مزید پڑھیں:۔Atique And Ashraf Killed in Firing عتیق احمد اور اشرف احمد فائرنگ میں ہلاک
کانگریس پارٹی سے راجیہ سبھا کے رکن پارلیمان عمران پرتاب گڑھی نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ عتیق احمد اور اشرف کا قتل اسپانسرڈ قتل ہے، میڈیا عرصہ دراز سے ان کا قتل کرنا چاہتا تھا، اسی لیے قاتلوں کو میڈیا پرسن بنا کر لایا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پلوامہ حملہ کے انکشافات سے توجہ ہٹانے کے لیے اس واردات کو انجام دیا گیا ہے۔ کیا خوب قانون کا راج ہے کہ پولیس حراست میں قتل ہو رہے ہیں۔ وہیں بی ایس پی کی رہنما مایا وتی نے بھی مذکورہ معاملہ میں ریاست کے لا اینڈ آرڈر پر سوالات کھڑے کئے ہیں، انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ بریلی جیل سے لائے گئے عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کو کل رات پریاگ راج میں پولس حراست میں کھلے عام گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، جو یوپی حکومت کے لاء اینڈ آرڈر اور اس کے کام کاج پر بہت سے سنگین سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں۔
واضح رہے کہ پولیس کی سیکیورٹی میں طبی جانچ کے لیے کالون اسپتال لائے جانے والے عتیق اور اشرف کو اسپتال کے باہر سرعام گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ عتیق اور اشرف کو گولی مارنے والے تینوں حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تینوں قاتل میڈیا والوں کے روپ میں ہجوم میں داخل ہوئے تھے۔ بتادیں کہ 13 اپریل کو ہی عتیق احمد کا بیٹا اسد جھانسی میں پولیس انکاونٹر میں ہلاک کردیا گیا تھا اور اس کی لاش کو ہفتہ کو ہی سپرد خاک کر دیا گیا تھا۔