شیراز ہند کی سرزمین پر بے شمار علماء و مشائخ پیدا ہوئے جن کی دینی خدمات و تصانیف سے صدیاں گزر جانے کے بعد بھی لوگ علمی اور عملی استفادہ کر رہے ہیں۔
دیوان عبدالرشید جونپور کی سب سے نمایاں اور عالیشان شخصیت ہیں مگر شہر کے شاندار ماضی کی طرح تاریخ میں وہ بھی دفن ہیں۔ شہر کے بیشتر افراد کو ابھی بھی خبر نہیں کہ جہاں سے وہ لاپرواہی سے گزر جاتے ہیں اسی جگہ اپنے زمانے کا وہ شہرہ آفاق عالم، فقیہ، فلسفی کی بود و باش ہوا کرتی تھی جس سے بادشاہ وقت ملاقات کرنا چاہتا تھا لیکن دیوان عبد الرشید ہندوستان کے بادشاہ شاہجہاں کے لئے اپنے حجرہ سے باہر نہ آئے تھے۔
دیوان عبد الرشید دولت مندوں سے ملنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کا انتقال 9 رمضان المبارک بمطابق 1083 ھجری کو فجر کی نماز کے دوران ہوا۔
شہر کے محلہ میرمست میں خانقاہ رشیدیہ آج بھی 352 سال قدیم ہونے کے باوجود اسی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ اس خانقاہ کو شاہجہاں کے زمانہ میں دیوان عبدالرشید نے تعمیر کروایا تھا۔ اس خانقاہ کےحجرے میں دیوان عبدالرشید کی قدیم اشیاء موجود ہیں، یہ حجرہ سال میں ایک مرتبہ زیارت کرانے کے لئے کھولا جاتا ہے۔ خانقاہ آج بھی اچھی حالت میں ہے اور دیکھ بھال بھی اچھے طریقہ سے کی جاتی ہے جس کی شاخیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔
مسجد رشیدیہ، مدرسہ رشیدیہ کے ساتھ ان کے نام سے منسوب محلہ رشیدآباد آج بھی آباد ہے۔ اسی محلہ میں آپ کا مزار ہے اور وہیں پر مولانا ہدایت اللہ خاں رام پوری، پروفیسر سید غلام سمنانی جونپوری بھی مدفون ہیں اس کے علاوہ لواحقین و مریدین کی سیکڑوں قبریں موجود ہیں۔
دیوان عبدالرشید کا عرس ہر سال بہت سادگی کے ساتھ منایا جاتا ہے دور دراز علاقوں سے آنے والے عقیدت مند حاضری کے ساتھ ایصال ثواب کرتے ہیں، لنگر کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
مزار پر کسی دھوم دھڑاکے اور سماع وغیرہ کے بغیر نہایت سادگی سے منایا جانے والا یہی عرس شہر کے مخصوص حلقوں میں ان کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ مدرسہ رشیدیہ میں حفظ و قرآت کے درس کا نظام قائم ہے۔ آستانہ رشیدیہ کے مدرسہ میں بھی سیکڑوں طلبہ زیر تعلیم ہیں۔