احمد عرفان کے اچانک انتقال سے شہر کے ادبی و سماجی حلقوں میں سوگ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ان کی عمر تقریباً 67 برس تھی۔ تدفین عیش باغ قبرستان میں بعد نماز عشاء عمل میں آئی۔ پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ تین بیٹے شامل ہیں۔
گزشتہ سال ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران پروفیسر احمد عرفان نے کہا تھا کہ 'اردو زبان کی ترقی اور اس کے نشوونما میں جو دبستان لکھنؤ کے مراکز تھے، وہاں پر آج اردو ختم ہوتی جارہی ہے، یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔'
یہ بھی پڑھیں: 'اردو زبان کے فروغ کے لیے رسم الخط پر توجہ دینا ضروری'
انہوں نے کہا تھا کہ 'دو دہائی قبل اردو زبان پر بہت کم کام ہوا ہے، جہاں تک رسم الخط کی بات ہے تو 21 ویں صدی میں یہ بہت بڑا مسئلہ اردو زبان کے سامنے آیا ہے۔' اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اردو زبان کے لیے کتنے فکرمند تھے۔
احمد عرفان علیگ سینئر علیگ تھے۔ انہوں نے علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ علی گڑھ کی میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔ وہ جب بھی ملتے بڑے گرم جوشی کے ساتھ ملتے۔
انہوں نے شہر میں گمنام شعراء کرام پر بھی بڑا کام کیا۔ اس طرح کے پروگرام میں عرفان علیگ ای ٹی وی بھارت کو خصوصی طور پر بلاتے تھے۔ عرفان علیگ ہر سال مجاز اور مولانا حسرت موہانی کے قبر پر فاتحہ خوانی کرواتے تاکہ نئی نسل انہیں فراموش نہ کر سکے۔
لکھنؤ کے اہم شعراء میں ان کا شمار ہونے کے ساتھ ہی وہ اچھے ادیب و مصنف بھی تھے۔ شہر کی ادبی و ثقافتی محفلوں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو ادب و دیگر شعبہ حیات میں لوگ ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اے ایم یو اولڈ بوائز لکھنؤ کے اعزازی سکریٹری تھے اور تادم حیات ایسوسی ایشن کی کاروان ادب مہم کے کنوینر بھی رہے۔ یوٹیوب پر ’باتیں علی گڑھ کی ‘ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا، جسےعلیگ حلقوں میں پسند کیا گیا۔ اپنے خالص لکھنوی لہجے کی بنا پر ہر خاص و عام میں وہ بے حد مقبول تھے۔