کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے کہا کہ 'جب ایک ریاست کا وزیراعلی پرامن مظاہرین کے خلاف بدلہ لینے جیسے لفظوں کا استعمال کرتا ہے تو پھر ایسی ریاستی انتظامیہ سے اور کیا امید کی جاسکتی ہے، ایسی صورت میں وہ لوگ تمام اقدار کی دھجیاں اڑتے ہوئے نہ صرف املاک کو نقصان پہنچائیں گے بلکہ عوام کو ہراساں بھی کریں گے کیونکہ انہیں ریاست کے سربراہ کی ہدایت پر عمل کرنا ہے'۔
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک میں ہونے والے احتجاج کے دوران مظاہرین پر پولیس کی جانب سے مبینہ بربریت کے لئے یوگی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے پرینکا گاندھی نے کہا کہ پولیس کی پوری کاروائی غیر قانونی ہے، اسے کسی بھی طرح سے جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
اتر پردیش میں خستہ حال نظم ونسق اور پولیس کی بربریت کے خلاف تفصیل سے بات کرتے ہوئے کانگریس رہنما نے کہا کہ 'سی اے اے مظاہرے میں گرفتار اکثر افراد کو بے بنیاد الزامات میں پھنسایا گیا ہے، انہوں نے دعوی کیا کہ کانگریس ایسے تمام افراد کی قانونی مدد مفت میں فراہم کرے گی۔
وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ پر طنز کرتے ہوئے پرینکا گاندھی نے کہا کہ زعفرانی لباس زیب تن کرنےوالے وزیراعلی کی طرف سے اپنی ہی عوام کے خلاف بدلہ لینے جیسے جملے کا استعمال قابل مذمت ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'انہیں اس رنگ کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے، زعفرانی رنگ ان کا ذاتی رنگ نہیں بلکہ بھارت کی روایت کا مظہر ہے، ہماری تہذیب میں بدلہ یا تشدد کا کوئی مقام نہیں ہے لیکن وزیراعلی بدلہ لینے کی بات کرتے ہیں۔
پرینکا نے کہا کہ تشدد اور توڑ پھوڑ کرنے والے کون لوگ ہیں اور اس کے پیچھے کون ہے؟ اس کی جانچ کسی ریٹائرڈ جج سے کرائی جائے، عام لوگوں کو نوٹس بھیج کر ان سے وصولی کرنا ان کے استحصال کے مترادف ہے، جب تک لاقانونیت اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کی پہچان نہ ہوجائے تب تک لوگوں کو پریشان نہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بغیر کسی مناسب کاروائی کے بے گناہوں کو نوٹس بھیجی جارہی ہے جن میں سماجی کارکن و ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر ایس دارا پوری جیسے سینیئر شہری بھی شامل ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر مظاہرین کے نام سے نوٹس جاری کی جارہی ہیں، اس فیصلے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس طرح کی کاروائی صرف سیاسی جماعتوں یا موجودہ و سابق لیجسلیچر یا کسی خاص شخص اور گروپ جس نے احتجاج کی کال دی ہو اسی کے خلاف ہی کی جائےگی۔
این آر سی کے تعلق سےپرینکا گاندھی نے کہا کہ 'این آر سی ملک کی عوام کو پریشان کرنے کے لیا گیا ہے، جس طرح نوٹ بندی کے دوران لوگوں کو پریشان کیا گیا تھا اسی طرح ایک مرتبہ پھر سے عام شہری پریشان ہوں گے، گاؤں میں جن غریبوں کے پاس دستاویزات نہیں ہیں وہ کہاں سے ثبوت دیں گے؟ شہروں میں مزدوری کرنے والے لوگ کہاں سے سنہ 1970 کا ٹیلی فون بل لے کر آئیں گے، انہوں نے کہا کہ کانگریس کے سبھی وزرائے اعلی نے اس کی مخالفت کی ہے۔