کورونا کے قہر سے دنیا خوف زدہ ہے۔ بھارتی حکومت نے اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا۔ مطلب جو جہاں تھا، وہیں ٹھہر گیا۔
اس سے سب سے زیادہ سماج کا غریب طبقہ متاثر ہوا، جو اپنے گھروں سے سینکڑوں میل دور روزی روٹی کے لئے پڑے تھے۔ آج وہی غریب مزدوروں کی ٹولی ہریانہ سے پیدل ہی بہار جا رہی ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران مسافروں نے بتایا کہ ہم لوگ ہریانہ سے پیدل ہی بہار جارہے ہیں۔ آج وہ لوگ دارالحکومت لکھنؤ پہنچے ہیں۔
انہوں نے مظفر پور جانے کا راستہ پوچھا اور بات چیت کے دوران بتایا کہ ہم نے پولیس میں شکایت کیا تھا، آدھار نمبر جمع کیا تھا، باوجود اس کے کوئی مدد نہ ہو پائی۔ آخر ہم لوگ بھوکے پیاسے ہریانہ میں کب تک رہتے؟
ایک مسافر نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران میرے ماں باپ کا انتقال ہوگیا۔ میں نے بہت کوشش کی لیکن اپنے گھر نہیں پہنچ سکا۔ اب بھوکے پیاسے ہم جا رہے ہیں، وہاں رکنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
گھروں کی طرف پیدل ہی نکل پڑے مزدور انہوں نے کہا کہ "نہ کرائے کے لیے پیسہ ہے اور نہ ہی سفر کے لیے کھانا۔ بس ایک ہی مقصد ہے اپنے منزل تک پہنچنا، بھلے ہی راستے میں ہماری موت ہوجائے۔"
مسافر نے بتایا کہ ہم غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ راستے میں کئی گاڑیاں نکلیں، ہم نے لفٹ مانگی لیکن غریب سمجھ کر کسی نے نہیں روکا۔ ہمارے پاس میں نہ کھانا ہے نہ پانی۔ راستے میں کچھ لوگوں کو ہم پر رحم آیا، تو کچھ کھلا پلا دیا وہی ہمارے پاس ہے۔
مزدوروں کی ٹولی ہریانہ سے پیدل ہی بہار جا رہی ہے مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں یہ ضرور دعویٰ کر رہی ہیں کہ کسی مزدور کو پیدل یا سائیکل سے جانے نہیں دیا جائیگا۔ جو جہاں ہیں، وہیں رہیں، سب کے لیے کھانا پانی کا انتظام کیا جائے گا۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر مزدوروں کو کھانا پینا ملتا تو وہ لوگ اپنی جان جو کھم میں ڈال کر ہزار کلو میٹر کا سفر کبھی نہیں کرتے۔