لکھنؤ کا محرم عزاداری، ذکر امام حسین، مجالس و محفل اور جلوس کے حوالے سے پوری دنیا میں منفرد شناخت رکھتا ہے۔ ایک طرف جہاں ایام محرم شروع ہوتے ہی شہر کے مختلف علاقوں میں کالے جھنڈے نصب کر دیے جاتے ہیں، امام باڑے عزا خانے سزا دیے جاتے ہیں، وہیں دوسری طرف گنگا جمنی تہذیب کی بھی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
لکھنؤ کے نور باڑے علاقے میں کچھ ایسے ہندو گھرانے ہیں جو نسل در نسل سے حضرت امام حسین کی محبت میں تعزیہ داری کرتے آرہے ہیں اور وہ برسوں سے تعزیہ بنانے کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ ایام محرم میں مجالس، محافل اور عزاداری کا بھی اہتمام کرتے آرہے ہیں۔
گنگا جمنی تہذیب کی شاندار مثال، ہندو پیروکار تعزیہ دار
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے تعزیہ دار دیپک نے بتایا کہ ایام محرم میں نہ ہی کسی قسم کی خوشی کا ماحول ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی خوشی کا پروگرام منعقد ہوتا ہے۔ یہاں تک بچوں کا یوم پیدائش بھی نہیں منایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے دیوی دیوتاؤں کو مانتے ہیں، ان سے عقیدت رکھتے ہیں۔ اسی طریقہ سے حضرت امام حسین سے بھی عقیدت رکھتے ہیں اور یہی نہیں ہمارا پورے گھر میں بچے، بوڑھے، خواتین سبھی حضرت امام حسین سے انتہائی الفت و عقیدت رکھتے ہیں اور ایام محرم میں درگاہوں، زیارت گاہوں پر جاکر ذکر امام حسین کرتے ہیں۔
اسی گھر کی خاتون جیو نے بتایا کیا کہ ایام محرم میں محفل منعقد کرنا اور مجلس کرنا یہ معمولات میں شامل ہے۔
مزید پڑھیں:واقعۂ کربلا اور یومِ عاشورا
راجو فقیرا بتاتے ہیں کہ پُشتوں سے ہمارے گھروں میں تعزیہ بنایا جاتا ہے اور تعزیہ داری بھی کی جاتی ہے۔ فقیرا بتاتے ہیں کہ کچھ افراد ضرور کہتے ہیں کہ تم ہندو ہو کر کے امام حسین سے کس طریقے سے الفت و محبت کرتے ہو اور مسلمانوں کا طور طریقہ کیوں اپنا رہے ہو لیکن ان تمام چیزوں کا فقیرا کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی امام حسین سے محبت میں کوئی کمی ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم درگاہ، کربلا اور زیارت گاہوں پر جاکر منت کرتے ہیں اور ہماری مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ہم وہاں جاکر امام حسین کا ذکر کرتے ہیں، شہدائے کربلا کو یاد کرتے ہیں۔ ہمارا پورا اہل خانہ انتہائی ادب و احترام کے ساتھ ماہ محرم میں امام حسین سے والہانہ عقیدت کا اظہار کرتا ہے۔
صرف مسلمان ہی نہیں حضرت امام حسین سے محبت کرتے ہیں بلکہ ہندو مذہب کے پیروکار بھی حضرت امام حسین کی عظمت و رفعت کے قائل ہیں۔ اسے نہ صرف مذہبی نقطہ نظر سے بلکہ باہمی رواداری، گنگا جمنی تہذیب کی شاندار مثال کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔