والدہ عقیلہ بیگم کے مطابق اُن کا بیٹا رخسان خان پہلی مرتبہ سعودی عرب بطور فیملی ڈرائیور گیا تھا۔ وہاں ناصر نام کے ایک شخص کے یہاں اُسے فیملی ڈرائیور کی ملازمت کرنے کا موقع ملا۔ ہر مہینے اُسے 1500 ریال تنخواہ ملتی تھی۔
دو برس کام کرنے کے بعد وہ تین ماہ کے لیے گھر واپس آ گیا اور پھر سعودی عرب واپس چلا گیا۔ دوبارہ جب وہ ناصر کے پاس پہنچا تو اُس نے رخسان کو کسی دوسرے شخص کے پاس بطور ملازم بھیج دیا۔
اُس شخص نے رخسان کا پاسپورٹ، ویزا اور ضروری دستاویز چھین کر اپنے پاس رکھ لیے۔ دو تین مہینے بعد تنخواہ دینا بند کر دیا۔
روپے کا مطالبہ کیا تو اُس نے جیل بھیجنے کی دھمکی دی۔ رخسان نے جب گھر بھیجنے کے لیے کہا تو مالک، تنخواہ دینے کے بجائے 10 ہزار ریال ادا کرکے پاسپورٹ، ویزا اور ضروری دستاویز دیے جانے کی بات کہہ رہا ہے۔
مایوس ہو کر رخسان نے سعودی عرب کے محکمہ محنت کو شکایت کی، تب مالک نے اُسے چار یا پانچ دن میں گھر بھیجنے کی یقین دہانی کرائی۔ لیکن چار پانچ دن میں بھیجنے کا وعدہ بھی وہ کئی مرتبہ کر چکا ہے۔
دوبارہ شکایت کرنے پہنچے تو وہاں سے کہہ دیا گیا کہ عدالت میں جاکر کیس کر دیجئے۔ عدالت کا رخ کیا تو وہاں بھی مالک نے تحریری یقین دہانی کرائی کہ اب وہ اُسے گھر بھیج دے گا، لیکن پھر بھی گھر نہیں بھیجا۔
ویزا کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔ اب رخسان وہاں سے نکل کر گھر واپس آنے کی تمام کوششیں کر رہا ہے، لیکن اُس کی کوئی کوشش، کوئی گزارش کام نہیں آ رہی ہے۔ ہر طرف سے مایوس اور پریشان، رخسان نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے مدد کرنے کی اپیل کی ہے۔
اس سلسلہ میں اُس نے ایک ویڈیو بھی جاری کیا ہے جس میں اُس نے وطن واپسی میں مدد کرنے کی گزارش کی ہے۔ ویڈیو میں اُس نے کہا ہے کہ میرے پاس نہ تو رہنے کے لئے گھر ہے اور نہ ہی کھانے کا کوئی بندوبست ہے۔
اپنے متعلقین کے کمروں پر جا کر کھانا کھا لیتا ہوں تو کبھی سڑک پر امداد کرنے والوں سے کھانے کو کچھ ملتا ہے، تو وہ کھا لیتا ہوں۔ کئی کئی دنوں تک بھوکا بھی رہنا پڑتا ہے۔ کبھی پارک میں رات گزرتی ہے تو کبھی فٹ پاتھ پر ڈر اور خوف کے سائے میں رات کاٹنی پڑتی ہے۔
مزید پڑھیں:
رخسان کے اہلِ خانہ نے بھارتی حکومت اور حکومت اتر پردیش سے گزارش کی ہے کہ اُن کے بیٹے کو گھر واپس لانے میں مدد کی جائے۔