علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کی زندگی، ان کے فکر و فن اور نظریات کے بےشمار پہلو ہیں، جو نئی نسل کو نئی روشنی عطا کرتے ہیں۔ مگر بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سر سید نے جو خواب دیکھے تھے آج وہ شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے، سر سید کے نام لیوا اور فضلاء علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سر سید کی تحریکیں نئی نسل تک پہنچانے میں کتنے کامیاب ہیں۔
اس تعلق سے ارریہ میں قائم علیگ ایسوسی ایشن کے ارکان نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کی۔ کیریئر گائیڈ اکیڈمی کے ڈائریکٹر سفیان احمد علیگ نے کہا کہ سر سید نے جو مشن دیکھا تھا آج پوری طرح سے نہیں تو کافی حد تک پورا ہو رہا ہے۔ سر سید کی ہی وجہ سے آج جدید تعلیم کی طرف لوگوں کا رجحان ہے اور اسی راستے پر چل کر نئی نسل ترقیاتی منزل طے کر رہی ہے۔ایڈووکیٹ زید اے مجاہد نے کہا کہ سر سید احمد خان نے اس قوم پر جو احسان کیا ہے اسے تاقیامت نہیں بھلایا جا سکتا، سر سید قوم و ملت کے ایسے روشن نظریہ ساز تھے، جن کی روشنی ایک صدی سے دنیا کو منور کر رہی ہے۔ سر سید ایسے دانشور تھے جن کی نظر کل پر تھی اور وہ ملک و ملت کو ساتھ۔ ساتھ ترقی کے بام عروج پر دیکھنا چاہتے تھے انہیں اندازہ تھا کہ آنے والا وقت کیسا ہوگا۔المنار ایجوکئیر کے ڈائریکٹر عفان کامل علیگ نے کہا کہ آج سر سید کے صرف ایک فکر کو پیش کیا جاتا ہے اور وہ ہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جبکہ ان کے ذہن اور بھی زاویے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ بھارت اس بات پر جتنا بھی ناز کرے کم ہے کہ پورے عالم اسلام میں جدید تعلیم کا پہلا ادارہ علی گڑھ میں سر سید نے قائم کیا۔ اس کے بعد جدید تعلیم کے لئے ادارہ سازی ہوئی وہ سب اسی کے ذریعہ پھیلائی ہوئی روشنی کا نتیجہ ہے۔ڈاکٹر ریحان نجیب علیگ نے کہا کہ سر سید نے طرح۔ طرح کی صلاحیتوں کو ایک ساتھ جوڑا تھا، تبھی علی گڑھ کا وجود عمل میں آیا۔روز ویلی پبلک اسکول کے ڈائریکٹر سرور عالم علیگ نے کہا کہ سر سید چاہتے تھے ایک ہاتھ میں قرآن ہو دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر ہو، آج اس مشن پر بہت حد تک ہم لوگ کامیاب ہیں۔