رامپور کے آخری نواب رضا علی خان کا کریسٹل تھرون (شاہی تخت) آجکل موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ دراصل نواب خاندان کے چشم و چراغ اور اترپردیش حکومت کے سابق وزیر نواب کاظم علی خاں عرف ناوید میاں نے اس شاہی تخت کی 1970 اور 1980 کے درمیان لی گئی تصویریں پیش کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اب وہاں نہیں ہے جس کی قیمت تقریباً 5 کروڑ جانچی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 1982 سے 1992 کے دوران اسے فروخت کئے جانے کا سنگین جرم کیا گیا۔
رامپور کے آخری نواب کا شاہی تخت کہاں گیا؟ قابل ذکر ہے کہ ہائی کورٹ کے احکامات پر ضلع جج کے ذریعہ آخری حکمراں کے وارثان کے درمیان املاک کی تقسیم کی کارروائی کرائی جا رہی ہے۔ منقولہ اور غیر منقولہ املاک کے تخمینہ کے لئے کورٹ نے کمشنر مقرر کئے ہیں۔ منقولہ املاک کی جو تخمینہ رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی ہے اس میں کرسٹل تھرون (شاہی تخت) کی قیمت 5 کروڑ روپئے جانچی گئی ہے۔
ناوید میاں کا کہنا ہے کہ کرسٹل تھرون سروے کے دوران غائب تھا۔ ناوید میاں نے بتایا کہ یہ کریسٹل تھرون قلعہ کے رنگ محل میں تھا۔ ریاست کے ہندوستان میں انضمام کے بعد پہلے اسے خاص باغ پیلیس کے بلیو روم میں اور پھر دربار ہال میں رکھا گیا تھا۔ بیلجیم میں بنے اس کریسٹل تھرون کے ساتھ کریسٹل کی ہی دو کرسیاں اور ایک اسٹول بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ کریسٹل تھرون کو 1982 سے 1992 کے درمیان فروخت کئے جانے کا انتہائی سنگین جرم کیا گیا ہے۔ جسے ممبئی کے اینٹک ڈیلر کے ذریعہ فروخت کئے جانے کی خبر ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیسہ کے لیے اپنی وراثت کو فروخت کیا جانا انتہائ گھٹیا کام ہے۔
نواب کاظم علی خاں عرف ناوید میاں براہ راست یہ الزامات اپنے چچا زاد بھائی نواب مراد میاں اور ان کی بہن پر عائد کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس کوٹھی خاص باغ میں نواب رضا علی خاں کا یہ سامان تھا وہیں یہ لوگ رہتے تھے۔ اس لیے وصولی بھی ان ہی لوگوں سے ہوگی۔ اب دیکھنا ہوگا کہ ان تمام الزامات کا جواب نواب مراد میاں کیا دیتے ہیں یا عدالت اس معاملہ میں اپنا کیا فیصلہ سناتی ہے۔