ایک طویل عرصہ تک ظفرآباد اپنے قدیم نام سے موسوم تھا۔ مگر جب شہزادہ ظفر خان ابن غیاث الدین تغلق نے حملہ کیا۔ جس کے بعد یہاں مسلمانوں کی مستقل حکومت قائم ہوئی اور اس جگہ کا نام ظفرآباد رکھا گیا۔
قصبہ ظفرآباد میں بے شمار مساجد و مزارات کے ساتھ قدیم و تاریخی عمارتوں کے کھنڈرات آج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں بھی بڑی مشکل سے ملتا ہے۔
یہ قصبہ اولیاء اللہ کا مسکن تھا جس کی گواہی سینکڑوں مزارات دیتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک ملا بہرام منطقی کا مقبرہ 'بارہ دری' ہے جو محلہ ناصحی میں جامع مسجد ظفر خان کے قریب شمال میں واقع ہے۔ اس مقبرہ میں بارہ در بنے ہوئے ہیں۔ اسی بناء پر اس کو باری دری کہا جاتا ہے۔
مقبرہ کا گنبد انتہائی خوبصورت ہے جو اونٹ کے کہان کی طرح نظر آتا ہے اور مقبرہ کے اندر بنے نقش و نگار و پھول پتیوں سے شرقی دور کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔
مؤرخین بتاتے ہیں کہ ملا بہرام منطقی شہزادہ ظفر خان کے ہمراہ دہلی سے ظفرآباد فوجیوں کی امداد کے لئے تشریف لائے تھے اور فتح کے بعد جامع مسجد ظفر خان ظفرآباد میں امام مقرر ہوئے۔
ایک دن ملا بہرام طلباء کو منطق کا درس دے رہے تھے کہ حضرت مخدوم آفتابِ ہند کا ادھر گزر ہوا۔ انہوں نے ملا بہرام سے کہا کہ مولانا اپنی عمر کو بک بک میں کیوں ضائع کرتے ہو، انسان کو وہ کام کرنا چاہیے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ حضرت مخدوم کے اس کلام کا ملا بہرام پر یہ اثر ہوا کہ انہوں نے درس دینا فوراً بند کر دیا اور مخدوم آفتاب ہند سے بیعت کر کے ریاضت، مجاہدہ و عبادت میں مصروف ہو گئے۔ ملا بہرام کی وفات 829 ہجری میں ابراہیم شاہ شرقی کے عہد سلطنت میں ہوئی۔
ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے مقامی شخص سراج الدین خان نے بتایا کہ یہ مقبرہ ملا بہرام منطقی کا ہے جو تغلق دور کے بہت بڑے بزرگ تھے۔ ان کا انتقال شرقی دور میں ہوا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ یہاں پر کسی طرح کا عرس نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی جمعرات کے روز علاقائی لوگ چادر پوشی و چراغاں وغیرہ کرتے ہیں۔ مقامی لوگ ہی یہاں صاف صفائی کرتے ہیں۔ فی الحال گندگی بہت ہے، جلد ہی صفائی کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس وقت مزار کی حالت خستہ ہے۔ کوئی مستقل دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے۔ مزار پر تختی نہ ہونے کی وجہ سے شناخت کرنا بھی مشکل ہے۔ اکثر افراد اتنی عظیم شخصیت کے نام و عظمت سے ناواقف ہیں۔
مزید پڑھیں:
مقبرہ کے اندر اوباش قسم کے لوگ بیٹھ کر منشیات کا استعمال کرکے مزار کے پاس گندگی پھیلاتے ہیں جس سے قبر کی بے حرمتی بھی ہو رہی ہے۔ اگر جلد اہل ظفرآباد نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا تو مقبرہ کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔