یوم اقلیتی حقوق کے موقع پر مشرف حسین سے خصوصی گفتگو مرادآباد: 18 دسمبر کو ہر سال اقلیتوں کے حقوق کا دن منایا جاتا ہے۔ اقلیتی حقوق کا دن ہندوستان میں اقلیتوں کے لیے آزادی اور مساوی مواقع کے حق کو برقرار رکھتا ہے اور ان کے حقوق کے بارے میں بیداری پیدا کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں چھ اقلیتی برادریوں یعنی مسلمان، سکھ، عیسائی، بدھسٹ، جین اور زرتشت(پارسی) کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں۔
موجودہ دور میں اگر اقلیتوں کے حقوق کی بات کی جائے تو ہندوستان کے آئین میں ان کے حقوق کی بات کی گئی ہے۔ ہندوستان کا آئین یہاں رہنے والے باشندوں کو برابری کا حق دیتا ہے اور انہیں اپنے مذہب کو اپنے طریقے سے ماننے اور اس پر عمل کرنے کی مکمل آزادی فراہم کرتا ہے۔
يوم اقلیتی حقوق کے موقع پر ہندوستان کی تاریخ اور سیاست کے ماہر مشرف حسین نے اس دن کی خصوصیت اور اس کو منانے کے مقصد کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہندوستان کے آئین میں پہلے ہی اقلیتیوں کو برابر کے حقوق دیے گئے ہیں اور ان کے تحفظ سے متعلق باتیں کہی گئی ہیں۔ لیکن عالمی سطح پر کہیں نہ کہیں یہ محسوس کیا گیا کہ اقلیتوں کے ساتھ بھید بھاؤ کیا جا رہا ہے اور ان کے حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے۔ اسی کو لیکر اقوام متحدہ نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے اپنی جنرل اسمبلی میں تجویز پیش کی، جس کے تحت ہر سال 18 دسمبر کو یوم اقلیتی حقوق کے طور پر منایا جانا طے ہوا۔
مشرف حسین نے بتایا کہ سبھی اقلیتی برادریوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی پریشانی جڑی ہوئی ہے اور چونکہ مسلمان سب سے بڑی اقلیتی برادری ہے، تو اس کے ساتھ مسائل اور پریشانیاں زیادہ ہیں۔ اس متعلق انہوں نے سچر کمیٹی کی رپورٹ کا بھی ذکر کیا جس میں مسلمانوں کی خستہ حالی کے متعلق بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح مسلمان اقتصادی، سیاسی اور سماجی طور پر پچھڑے ہوئے ہیں۔
علاوہ ازیں مسلمانوں کو نوکریوں میں کتنی حصے داری دی جاتی ہے، تعلیم کے میدان میں ان کا پچھڑاپن اور بینکوں سے ملنے والی مدد ان سب میں مسلم اقلیتوں کی تصویر صاف ہو جاتی ہے، جس میں وہ پچھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے آگے کہا کہ اگر اقلیتوں کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ کیا جا رہا ہے تو سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرف دھیان دے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت سچر کمیٹی کی رپورٹ سے اتفاق نہیں رکھتی ہے تو وہ اپنی کمیٹی بنائے اور اپنے طور پر جانچ کرائے اور حقیقت سامنے لائے۔ اگر جانچ میں کہیں مسلمانوں کے حقوق کی پامالی نظر آئے تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کمیٹیوں کو دور کرکے انکے حقوق کی حفاظت کرے۔ اس کی ایک وجہ انہوں نے یہ بھی بتائی کہ ہندوستان اقوام متحدہ کا ایک ممبر ہے اور ممبر ہونے کے ناطے وہ یوم اقلیتی حقوق مناتا ہے، تو اب حکومت کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اقلیتی فرقوں کے ثقافت ان کے مذہب اور ان کی زبان کی حفاظت کا انتظام کرے۔
اس کے علاوہ مشرف حسین نے زبان بدلنے کو بھی غیر ضروری قرار دیا انہوں نے کہا کہ اردو کہیں باہر کی زبان نہیں بلکہ ہندوستان کی ہی زبان ہے۔ مشرف حسین نے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ کوئی بھی اقلیتی فرقہ اگر اس کے حقوق نہ ملنے کی وجہ سے پیچھے رہ جاتا ہے، تو پھر وہ سماج اور ملک پر بوجھ بن جاتا ہے۔ اس لیے اقلیتی فرقوں کو مضبوط کرنا یوں بھی ضروری ہے کہ ان کو بوجھ نہ بنائیں، بلکہ ان کو خود مختار بنائے تاکہ آنے والے وقت میں وہ ملک کو مضبوطی دینے کا کام کریں۔
یہ بھی پڑھیں؛
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہندو اور مسلمانوں کے بیچ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جو پُرنفرت باتیں کی جا رہی ہیں، حکومت اُن پر روک لگائے اسکے علاوہ اُنہوں نے سبھی مذاہب کے درمیان آپسی بھائی چارہ اور میل محبت سے متعلق بات کی۔