بینکٹ ہال، کیٹرر کے ساتھ، بینڈ بگّھی والوں کی بھی حالت پست ہو چکی ہے۔
لاک ڈاؤن میں شادیوں سے وابستہ کاروبار بند شہر میں 150 کے قریب بینڈ مالکان کو ایک بڑے معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شاہی شادیوں میں، اچھا اناج اور پانی پینے والے گھوڑے اب گھاس کھانے کو ترس رہے ہیں۔
لاک ڈاؤن میں شادیوں سے وابستہ کاروبار بند کورونا کی وجہ سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن جاری ہے۔ جس سے ہوٹل، ٹینٹ اور کیٹرنگ کے کاروبار کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔
بینڈ باجے والوں کو بھی بھاری نقصان ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، شہر میں 150 کے قریب بینڈ باجے والے اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔
ہر بینڈ باجے والے کے ساتھ اوسطاً 60 سے 70 افراد منسلک ہوتے ہیں، یعنی 60 سے 70 خاندانوں کا خرچ بینڈ باجے کے کاروبار سے چلتا ہے۔ شاہی شادیوں میں یہ عملہ اضافی ہوکر 125 سے 150 تک ہو جاتا ہے۔
ایک موسم میں بینڈ مالکان کو 70 سے 75 شادیوں میں بینڈ بجانے کا موقع ملتا ہے۔ اس برس پورے سیزن میں، بینڈ کی سُراہی، ڈی جے، نیپیری، ڈھول اور نغموں کی مخملی آواز سب خاموش ہیں۔
شادیوں میں ڈانسرس کے منچ، مائک اور میوزک کی خاموشی نے ان کے کنبے کے چولہے کو خاموش کردیا ہے۔ بینڈ مالکان کے پاس عملے کو تنخواہ کی ادائیگی کے لئے رقم نہیں ہے۔ ان لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے بابت بھی کچھ غور و فکر کیا جائے۔
لوگ اپنی شادی کو یادگار بنانے کے لیئے شادی کی تقریب کے ہر لمحہ کو کیمرے میں قید کرانے کے لیئے فوٹو اور ویڈیو گرافی بھی کراتے ہیں۔
اوسط درجہ کی فوٹو ویڈیو گرافی کرنے والے فوٹو گرافر ایک شادی میں 25 سے 30 ہزار روپیہ وصول کرتے ہیں۔
ایک شادی میں فوٹو ویڈیو گرافی کرنے میں کم از کم چھ لوگوں کا عملہ رہتا ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے فوٹو گرافی کا کاروبار بھی عروج سے زوال کی طرف گامزن ہے۔
بگّھی کے ساتھ استعمال ہونے والے شہر میں تقریباً 500 گھوڑے ہیں۔ اسکے لیئے دانہ اور چارے کا انتظام کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
ایک بارات میں گھوڑے سے تقریباً ایک ہزار روپیہ کہ آمدنی ہوتی ہے۔ علیہدہ ملنے والا انعام اضافی آمدنی ہوتی ہے۔ کئ لوگوں کے پاس چار چار گھوڑے تک ہیں۔ اُنکی گھاس کا بندوبست کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔
شادی ہال شادیوں میں مہمانوں کو دعوت دینے کے لیئے کارڈ چھپوائے جاتے ہیں۔ جس سے پرنٹنگ پریس مالکان کی مشیںیں دن رات کارڈ کی چھپائ کرکے شادیوں میں لوگوں کی دعوت و ضیافت دینے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ لیکن اس بار پرنٹنگ پریس مشینوں کا پہیہ جام ہو گیا ہے۔
گزشتہ دو ماہ سے شاید ہی ایک کارڈ چھپا ہو۔ ایسی ہی صورتِ حال کم و بیش شادی ہالوں کی ہے۔ کروڑوں کی لاگت سے تعمیر کردہ شادی ہالوں میں ایک مہینے میں کم از کم 10 سے 15 شادیاں مکمل ہوتی ہیں۔
مڈل کلاس کے ایک میرج ہال میں، ایک بُکنگ میں 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک ملتے ہیں۔ لیکن لاک ڈاؤن نے شادی ہالوں پر تالا ڈالنے کو مجبور کردیا ہے۔ اب لوگ صرف اور صرف حکومت کی جانب حسرت اور امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں.