ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے ثانیہ انور نے بتایا کہ، 'ریاست میں لو جہاد قانون ٹرینڈنگ میں ہے، اس سے ایک طرف جہاں ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں، لڑکیوں کو آزادی سے زندگی گزارنے کے حق کو بھی چھینا جا رہا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ، 'اگرچہ اسلام مذہب یا ہندو مذہب اس بات کا پابند بناتے ہیں کہ اپنے ہی مذہب کے ماننے والوں سے شادی کریں لیکن نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ذات پات مذہب سے پرے اپنے ہم سفر کو منتخب کرتے ہیں۔ ایسے میں وہ لڑکیاں بھی اب اس قانون کی وجہ سے اپنے ذاتی معاملہ میں از خود فیصلہ لینے کی اہل نہیں ہوں گی، جو ذات پات مذہب پر یقین نہیں رکھتی ہیں۔'
انہوں نے مزید کہا کہ، 'اگر جبراً تبدیلی مذہب کا خدشہ ہے تو اس کے لیے دیگر قوانین موجود ہیں، جس سے کاروائی کی جا سکتی ہے۔'
فری لانس صحافی اونتیکا نے کہا کہ، 'اترپردیش کی موجودہ حکومت کی نیت درست نہیں ہے اس قانون سے ایک خاص مذہب کے ماننے والے افراد کو ہدف بنایا جا رہا ہے، جو درست نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ سماج لڑکیوں کو ہمیشہ سے کمزور سمجھتا آ رہا ہے، یہ قانون اسی نظریہ پر مرکوز ہے کہ لڑکیاں از خود اپنی ذاتی زندگی کا فیصلہ نہیں لے سکتی ہیں۔ جب کہ ایسا نہیں ہے لڑکیاں ہر میدان میں نمایاں مقام حاصل کر رہی ہیں تو کیا وہ اتنی کمزور ہیں کہ کسی کے بہلانے سے اپنا مذہب بدل دیں گی؟'