الہٰ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ 'لکھنئو ضلع انتظامیہ ان تمام پوسٹرز اور بینرز کو نکالے جس پر سی اے اے مخالف مظاہرین کی تصاویر ہین اور 16 مارچ تک اس کے متعلق حلف نامہ بھی داخل کرے۔'
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف لکھنئو میں ہوئے 19 دسمبر کو مظاہرے کے بعد ضلع انتظامیہ اور پولیس نے سخت کاروائی کرتے ہوئے بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔
اس کے علاوہ لکھنئو ضلع انتظامیہ نے سرکاری املاک کے نقصان کی بھرپائی کے لیے 57 افراد کو نوٹس بھیجا تھا، انتظامیہ یہیں نہیں رکی بلکہ ان سبھی افراد کی تصاویر ایک پوسٹر کے ذریعے شہر کے مختلف علاقوں میں آویزاں کی جس کے بعد سیاسی ماحول گرم ہوگیا۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے لکھنئو کے ڈی ایم اور پولیس کمشنر کو طلب کیا، اس کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہر حال میں تمام ہورڈنگس ہٹائی جائیں اور 16 مارچ کو ایک حلف نامہ بھی داخل کریں۔
کورٹ کے فیصلے کے بعد شیعہ چاند کمیٹی کے صدر مولانا سیف عباس نے کہا کہ ہم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ مولانا سیف عباس جو بڑے شیعہ عالم دین ہیں ان کی بھی تصویر شہر کے مختلف علاقوں میں لگی ہوئی تھی اس کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ یہ قانون کے خلاف ہے۔
مولانا عباس نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'کورٹ نے ثابت کردیا ہے کہ کوئی بھی قانون سے اوپر نہیں ہے، یہ ان لوگوں کے لیے پیغام ہے جو حکومت کی تانا شاہی کے اشاروں پر خود کو حاکم سمجھ کر کاروائی کر رہے ہیں، ان کےلیے یہ عبرت کا مقام ہے۔