مظفرنگر:اتر پردیش کے ریاستی وزیر مملکت برائے پیشہ ورانہ تعلیم اور فروغ ہنر کپل دیو اگروال نے مولانا ارشد مدنی کے مدرسہ سروے سے متعلق Arshad Madani on Madrassa survey اس بیان پر ردعمل کا اظہار کیا ہے جس میں مولانا سید ارشد مدنی نے کہا تھا کہ مدارس کسی بورڈ میں شامل نہیں ہوں گے اور نہ ہی ہم سرکاری مدد لیں گے۔ دراصل مدارس بورڈ میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے سلسلہ میں اتر پردیش کے سہارنپور ضلع کے دیوبند میں مدرسہ چلانے والوں کی ایک کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔ جس میں جمعیت علماء ہند کے سربراہ مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ مدارس کسی بورڈ میں شامل نہیں ہوں گے اور نہ ہی ہم سرکاری مدد لیں گے۔ Kapil Dev Aggarwal Reaction on Arshad Madani Madrassa survey Statement
مولانا ارشد مدنی کے مدرسہ سروے سے متعلق بیان پر وزیر مملکت کا ردعمل یہ بھی پڑھیں:
اتر پردیش میں گزشتہ مہینوں میں کیے گئے مدرسہ سروے پر بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ اتر پردیش کے سہارنپور ضلع کے دیوبند میں مدرسہ چلانے والوں کی ایک کانفرنس اور اجلاس میں مدارس کو کسی بورڈ سے منسلک نہ کرنے کی قرارداد بھی منظور کی گئی۔ مدارس پر دیے گئے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے ریاستی وزیر کپل دیو اگروال نے کہا کہ اس طرح کے بیانات دے کر ان مدارس اور مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں اور ان کے والدین کو گمراہ کرنے کا کام ان کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیکھیں دارالعلوم ہندوستان کا ایک بڑا ادارہ ہے اور اس طرح کی بیان بازی ارشد مدنی کر رہے ہیں، میری نظر میں یہ قابل اعتراض ہے۔
کپل دیو نے مزید کہا کہ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ ایک ہاتھ میں دین کی کتاب یعنی قرآن ہو گا اور دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ ہو گا تو بچے آگے بڑھیں گے۔ سائنس کی تعلیم حاصل کریں گے۔ فزیکل سائنس پڑھیں گے۔ کیمسٹری پڑھائی جائے گی اور آپ ملک کے اچھے شہری بن سکیں گے، ایسے الٹے سیدھے بیانات دے کر مدارس میں پڑھنے والے بچوں اور ان کے والدین کو گمراہ کیا جارہا ہے۔
حکومت چاہتی ہے کہ مسلم معاشرے کے بچے تعلیم یافتہ بچے ہوں، ایسے بچے مدرسہ بھی جائیں، پڑھائی بھی کریں اور ساتھ ہی کمپیوٹر بھی پڑھیں۔ اگر آپ اس طرح کی پڑھائی کریں گے تو یقیناً وہ آگے بڑھ کر آئی اے ایس، آئی پی ایس افسر بنیں گے، فوج کے اندر جائیں گے اور ملک کا اچھا شہری بن کر ملک کی ترقی میں حصہ لیں گے۔
اس طرح کے متضاد بیانات دے کر وہ نوجوانوں کو تنگ اور ایک ذہنیت کے تحت محدود رکھنا چاہتے ہیں جو کہ انتہائی قابل اعتراض ہے۔ وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم ملک کی ترقی میں ان کو حصہ دار بنانا چاہتے ہیں، انہیں آگے لے جانا چاہتے ہیں، اسی پر کام کر رہے ہیں۔ سروے کروانے کا فائدہ یہ ہوگا کہ سروے کروانے سے معلوم ہو گا کہ کون سے مدارس کو تسلیم کیا گیا ہے اور کون سے نہیں، تاکہ آئندہ اس تعلق سے مدارس کو منظور شدہ کی فہرست میں شامل کیا جاسکے۔