پولیس ایسے مجرم کا ہاف انکاؤنٹر کر رہی ہے جو کچھ وقت جیل میں رہ کر چھو ٹ جاتے ہیں اور پھر جرم کی دنیا میں جرائم کرنے لگتے ہیں۔ ایسے مجر م شہر میں لوٹ، چوری رہزنی، ڈکیتی چین اسنیچنگ جیسے جرم کو انجام دے رہے تھے۔
ہاف انکاونٹر کا مطلب صاف ہے کہ پیر پر گولی مار کر زخمی کرنا اور مجرم کو اس حالت میں پہنچا دینا کہ دوبارہ جرم کرتے وقت ٹھیک سے چل نہ سکے ۔ لیکن پولیس کو اس بات کا بالکل خیال نہیں ہیں کہ یہ حاف انکاؤنٹر سرا سر ہیومن رائٹس کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کانپور پولیس نے تین تھانہ علاقوں میں تصادم کے دوران تین مجرموں کو گولی مار کر زخمی کر دیا ۔ تینو ں زخمی مجرموں کو علاج کے لئے میڈیکل کالج میں داخل کرایا گیا ہے۔ حیرانی تو اس بات کی ہے کہ تصادم میں تینو ں مجرموں کے پاؤں میں ہی گولی ماری گئی جس سے پولیس کے اس انکاؤنٹر پر سوال بھی اٹھ رہا ہے کانپور پولیس نے فضل گنج ،، کلکٹر گنج اور چوبےپور تھانہ علاقوں میں تین بدمعاشوں سے تصادم ہو نا بتایا ہے۔
اس تصادم کے دوران مجرموں نے بچنے کے لئے پولیس پر فائر کر دیا ۔ پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے بدمعاشوں کے پاؤں میں گولی مار کر زخمی کر دیا ۔ تینو ں بدمعاشوں کا علاج کرانے کے لئے کانپور میڈیکل کالج میں داخل کرایا ہے۔
انکاؤنٹر کر وہ واہی لوٹنے والی کانپور پولیس نے میڈیا سے بات کرنے کے بجائے وهاٹس ایپ پر بیان جاری کیا ہے۔ ایس پی مشرقی راجکمار اگروال نے کہنا ہے کہ کانپور ضلع کے تین تھانہ علاقوں میں تصادم کے دوران تین مجرم زخمی ہوئے ہیں۔ زخمی مجرم چھوٹو کشیپ فضل گنج کا رہنے والا ہے۔ آکاش شریواستو كلكٹرگج کا رہنے والا ہے اور تیسرا مجرم جے سنگھ یادو چوبےپور کا رہنے والا ہے ۔ ایس پی کا کہنا ہے کہ تینو ں بدماش ڈاکو ہیں۔ اور کانپور کے کئی تھانہ علاقوں میں ان کے خلاف ایک درجن سے زائد مقدمے رجسٹرڈ ہیں۔چوبےپور کا رہنے والا مجرم جے سنگھ 15 ہزار کا انعامی ہے ۔ تینو ں کو گرفتار کر کاروائی کی جا رہی ہے۔
پولیس کے ان انکاؤنٹر پر سوال اٹھ رہے ہیں کیونکہ پولیس کہہ رہی ہے کہ جے سنگھ کو تصادم کے دوران پکڑا گیا ہے جبکہ اس کا کہنا ہے کہ کچھ بدمعاشوں نے ہمیں گولی مار دی اس وقت وها ں پر پولیس نہیں تھی ۔ اگر پولیس کی کہانی میں سچ ہے تو پھر میڈیا کے ذریعہ پوچھے گئے سوالوں کا جواب پولیس کیوں نہیں دے رہی ہےْ یہ انکاؤنٹر جعلی نہیں ہے تو میڈیا سے بات کرنے کے بجائے وهاٹس ایپ پر بیان کیوں جاری کیا گیا؟
یہ وہ سوالات ہیں جو کانپور کے صحافی پولیس سے پوچھ رہے ہیں۔