علیگڑھ: بھارت کو طویل جدوجہد کے بعد 15 اگست 1947 کو آزادی کی نعمت حاصل ہوئی، جس کے لیے مسلمانوں نے زبردست قربانیوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے جان و مال کی قربانیاں دیں اور تحریکیں چلائیں۔ عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) نے بہت سے نامور مجاہد آزادی، قوم پسند ادیب، شاعر اور صحافی پیدا کیے، جنہوں نے ملک کو برطانوی حکومت سے آزاد کرانے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ اے ایم یو کی مولانا آزاد لائبریری میں "اے ایم یو کے مجاہدین آزادی گیلری" ہے جن میں 40 سے زیادہ مجاہدین آزادی کی تصویریں ہیں۔ جشن یوم آزادی کے موقع پر اردو اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بغیر ملک کی آزادی کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔بانی درسگاہ سرسید احمد خان کے زمانے کا طالب علم راجہ مہند پڑتال سنگھ نے قابل میں جا کر جلاوطنی کی حکومت (Exile Goverment) بنائی۔
حسرت موہانی:
1903 میں علی گڑھ سے بی اے کی ڈگری حاصل کرنے والے سید فضل الحسن، جنہیں مولانا حسرت موہانی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے 1921 میں کانگریس کے سامنے پہلی بار مکمل آزادی کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے غیر ملکی اشیاء کے خاتمے کی تجویز بھی پیش کی تھی، اسی کو بعد میں گاندھی جی نے ایک تحریک کی شکل دے دی تھی۔ حسرت موہانی نے ہی انقلاب زندہ باد کا نعرہ 1921 میں دیا تھا جو تحریک آزادی کی بنیاد بنا۔ راحت ابرار نے مزید بتایا تحریک آزادی کے دوران مہاتما گاندھی دو تین مرتبہ علیگڑھ تشریف لائے اور کہا ہمارے تحریک سودیشی ہونی چاہئے جس میں ہماری زبان اور لباس سودیشی ہوگا جس کے پیش نظر اے ایم یو کے طلباء نے اردو زریعہ تعلیم کے لئے جامعہ ملیہ اسلامیہ قائم کی تھی کیونکہ اے ایم یو کا تدریس کا ذریعہ انگریزی تھا۔ بھارت کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کا حصہ ممتاز و نمایاں رہا ہے کیونکہ انگریزوں نے اقتدار مسلم حکمرانوں سے ہی چھینا تھا، اقتدار سے محرومی کا دکھ اور درد مسلمانوں کو ہوا، اس کی تکلیف اور دکھ مسلمانوں کو برداشت کرنا پڑا، اسی لیے محکومیت وغلامی سے آزادی کی اصل لڑائی بھی انھیں کو لڑنی پڑی۔