مسجد کے امام صرف امامت نہیں کرتے بلکہ قوم کی قیادت بھی کرتے ہیں لیکن موجودہ وقت میں ائمہ حضرات کے سامنے مختلف مسائل ہیں، جن میں سب سے بڑا مسئلہ تنخواہ ہے۔
'وقف بورڈ مسجد امام کی تنخواہ مقرر کرے' ائمہ کی تنخواہ کے مسئلے پر حکومت بھی خاموش ہے اور وقف بورڈ نے فنڈ نہ ہونے کا رونا رو کر اس مسئلے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ہے۔
الامام ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر عمران صدیقی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران بتایا کہ امام کی ذمہ داری صرف نماز پڑھانے کی نہیں ہے بلکہ اطراف کے لوگوں کو دین سمجھانے کی بھی ہے تاکہ وہ بہتر انسان بن سکیں۔
پہلے زمانے میں انہیں مال غنیمت سے حصہ دیا جاتا تھا کہ ان کی ضروریات پوری ہو جاتی تھی لیکن موجودہ وقت میں ائمہ حضرات مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ انہیں نہ وقت پر کھانا ملتا ہے اور نہ ہی زیادہ تنخواہ ملتی ہے۔ گاؤں دیہات میں ابھی بھی دو سے تین ہزار روپے ماہانہ دیا جاتا ہے اور کم و بیش یہی حالات شہروں کے بھی ہیں۔
عمران صدیقی نے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے بتایا کہ شہروں کی مساجد میں دکانیں بھی ہوتی ہیں لہذا اس میں سے ایک دکان امام کو دینا چاہیے تاکہ وہ اس میں کوئی کام کر سکیں اور وہ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ امام اور عوام کو ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، تبھی ہماری قوم ترقی کر سکتی ہے۔ دین مسجد سے ہی پھیلا ہے۔ "مسجد ہماری پرائمری ایجوکیشن ہے جب کہ مدرسہ ہائر ایجوکیشن ہوا کرتے تھے لیکن آج حالات بدل چکے ہیں۔"
آج قوم کا سارا پیسہ مدارس میں بطور چندہ جاتا ہے اور مساجد بچوں سے ویران ہو چکی ہیں۔ کبھی یہی مساجد دین کا مرکز ہوا کرتی تھیں اور محلے کے بچے امام سے عربی اردو زبان سیکھنے کے بعد مدرسہ میں داخلہ لیتے تھے۔
الامام ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ ہم نے وقف بورڈ کے چیئرمین سے بات کی، جس میں تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے سبھی مساجد کو وقف بورڈ سے رجسٹرڈ کروایا جائے اور مسجد امام کو کم از کم 15 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جائے۔ انہوں نے تجویز پسند کی لیکن فنڈ نہ ہونے کی بات کہہ کر معاملے کو حکومت تک پہنچانے کو کہہ دیا۔
عمران صدیقی نے کہا کہ "ہمیں موجودہ حکومت سے کوئی امید نہیں ہے۔ اس سے پہلے اکھیلیش یادو جب وزیر اعلی تھے، ہم نے ان سے بھی مطالبہ کیا تھا لیکن انہوں نے بھی نظر انداز کردیا جبکہ انہیں مسلمانوں کا لیڈر کہا جاتا ہے۔"
ہم وقف بورڈ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سبھی مساجد کو اندراج کرے تاکہ مستقبل میں کوئی جھگڑا فساد نہ ہو۔ اس کے علاوہ وقف کی زمین کو اس طرح استعمال کرے تاکہ آمدنی کا ذریعہ بنے اور اسی سے مسجد امام کو تنخواہ ادا کی جائے۔ ساتھ ہی ان کا 'ہیلتھ کارڈ' بھی بنے۔
قابل ذکر ہے کہ ملک کی کئی ریاستوں میں ائمہ حضرات کو تنخواہ دی جا رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے 1992 میں اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ وقف بورڈ اماموں کے لیے تنخواہ مقرر کر سکتی ہے لیکن اترپردیش میں ابھی تک شیعہ و سنی وقف بورڈ نے اس جانب کوئی اقدام نہیں اٹھایا ہے۔