اتر پردیش میں آئندہ برس 2022 میں ہونے والے اسمبلی (UP Assembly Elections) انتخابات کے پیش نظر سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ سبھی پارٹیاں اپنی جیت کا دعویٰ کررہیں ہیں، لیکن کون سی سیاسی پارٹی 2022 میں اقتدار میں آئے گی، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
وہیں وزیراعظم نریندر مودی نے جب سے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا تب سے اتر پردیش کی سیاست نے ایک الگ ہی رخ اختیار کرلیا۔
اس ضمن میں ای ٹی وی بھارت نے لکھنؤ میں ہوئے کسان مہا پنچایت میں آئے لوگوں سے بات چیت کی اور جاننے کی کوشش کی کہ اترپردیش میں گذشتہ برسوں میں ماب لنچنگ اور مذہب کے نام پر نفرت کم ہوئی ہے یا ویسے ہی برقرار ہے؟ دائیں بازو کی سیاسی جماعت گائے ،رام مندر، لو جہاد اور مغربی اترپردیش میں ہندوؤں کی نقل مکانی جسے ایشوز کا اپنے انتخابی جلسوں میں بار بار ذکر کررہی ہے، اس کا 2022 کے اسمبلی انتخابات میں کتنا فائدہ ہوگا۔
اس تعلق سے سماجی کارکن راجیو یادو بتاتے ہیں کہ اس کسان مہا پنچایت کا اتر پردیش میں بڑا پولیٹیکل امپیکٹ دیکھنے کو ملے گا۔ مغربی اترپردیش سمیت مشرقی اترپردیش اور بندیل کھنڈ مہوبا سمیت متعدد علاقوں کے کسانوں نے اس مہا پنچایت کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور اس کا اثر آنے والے انتخابات میں ضرور دیکھنے کو ملے گا۔
انہوں نے بتایا کہ موجودہ وقت میں رام مندر لو جہاد جیسے مسئلے نوجوان نسل کے لئے بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔ تاہم موجودہ حکومت ان تمام چیزوں کو انتخابی میدان میں لے جائے گی لیکن اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوگا۔
مہاپنچایت (Kisan Mahapanchayat) میں سنبھل سے آئے کسان یونین کے ضلع رہنما ششیل کمار بتاتے ہیں کہ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے متعدد گاؤں کا دورہ کرکے ان کے لیے ووٹ مانگے تھے لیکن موجودہ وقت میں وہ مودی اور یوگی کے سخت مخالف ہیں۔ مزید پڑھیں:
ششیل کمار نے اپنی ذات کا نام لے کر کہا کہ میں برہمن ہوں اور یوپی میں برہمنوں پر حملوں کے ساتھ ساتھ یہ حکومت زیادتی کررہی ہے۔
رام مندر اور گائے کے تحفظ و دیگر ہندوتوا کے موضوعات پر کہتے ہیں کہ اس میں بی جے پی کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ رام مندر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد تعمیر ہونا شروع ہوا ہے۔ گائے کے تحفظ کے نام پر بی جے پی جھوٹا دعویٰ کر رہی ہے، زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ گوشالہ میں گائیں بغیر چارہ کے مر رہی ہیں اور کتے نوچ کر کھارہے ہیں۔
اسی درمیان ایک برہمن خاندان کے نوجوان روہت شرما نے کہا کہ جس طریقے سے وزیراعظم نے اعلان کیا کہ دو ٹیکہ لگانے سے کورونا ختم ہوجاتا ہے، اسی طریقے سے اب دو ٹیکہ لگائیں گے ایک بار میں یوگی کی اقتدار ختم اود دوسری بار میں مودی اقتدار سے ہاہر ہوں گے۔
بارہ بنکی سے آئے ہوئے کسان رہنما سنجے رستوگی بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے جو تین زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا ہے، وہ ان کا خود کا کیا ہوا تھا۔ اگر وزیراعظم کو قانون نہ بناتے تو کسان کی اموات نہ ہوتیں اور یہ مظاہرے بھی نہ ہوتے۔ لہٰذا انہوں نے اپنا کیا ہوا واپس لیا ہے۔ ابھی جو کسان کے اہم مسئلے ہیں وہ باقی ہیں، اس کو سلجھانا ضروری ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندو مسلم کے مابین نفرتیں پیدا کرنے کے لئے جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا تاکہ دو مذہب کے لوگ ساتھ میں نہ بیٹھ سکیں لیکن کسان مظاہرے کے بعد یہ دوریاں کم ہوئی ہیں اور اب سبھی مذاہب کے لوگ کسان مظاہرہ اور مہا پنچایت میں شامل ہو رہے ہیں اور اتحاد کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور یہ اتحاد ووٹ میں بھی تبدیل ہوگا۔
بارہ بنکی سے آئے ہوئے حاجی محمد امتیاز بتاتے ہیں کہ کسان یونین کے رگ رگ میں ہر ہر مہادیو اللہ اکبر جیسے نعرے بسے ہوئے ہیں اور یہ نعرے آپسی اتحاد اور بھائی چارہ کو مضبوط کرتے ہیں لہذا آنے والے انتخابات میں بھی اس کا اثر پڑے۔