مرحوم شمس الرحمن فاروقی کا آبائی وطن مئو ضلع کا قصبہ کوئیریاپار ہے۔ پہلے یہ اعظم گڈھ ضلع کا حصہ تھا۔ سنہ 1989 میں مئو کو ضلع بنا دیا گیا اور کوئیریاپار مئو ضلع کی ایک گاؤں کا پنچایت بن گیا۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب کے چند اہل خانہ آج بھی کوئیریاپار میں مقیم ہیں۔ مرحوم شمس الرحمن فاروقی صاحب کے چچازاد بھائی کمال فاروقی کوئیریاپار میں ہی مقیم ہیں۔ وہ اپنے برادر محترم کے انتقال کی خبر سے بے حد غمزدہ ہیں۔
جسمانی طورپر معذور کمال فاروقی مقامی انٹرمیڈیٹ کالج میں میتھ میٹکس (ریاضی) کے لیکچرار رہے ہیں۔ وہ گاؤں کے پردھان بھی رہ چکے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب کے انتقال کا ان پر خاصہ اثر ہے۔ شمس الرحمن صاحب کے ساتھ گزارے گئے لمحات کو یاد کرتے ہوئے ان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔شمس الرحمن فاروقی صاحب کے بھتیجے اور آلہ آباد ہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ ضیاء الدین فاروقی کے مطابق شمس الرحمن فاروقی صاحب کی کوئیریاپار آمد پر یہاں ادبی نشستوں کا انعقاد ہوتا تھا۔ یہ طرحی نشستیں اردو زباں و ادب کے فروغ کا پلیٹ فارم رہی ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب UPSC امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد الائیڈ آئی اے ایس بنے۔ وہ اترپردیش کے چیف پوسٹ ماسٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں ۔
بلاشبہ فاروقی صاحب کے مرحوم ہونے سے اردو دنیا کو جو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی مستقبل قریب میں تو مشکل ہے۔ ایک ایسا شخص جس کا باضابطہ اردو ادب سے نہ تو کبھی واسطہ رہا نہ رابطہ۔ لیکن جب انہوں نے اردو زبان و ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو اپنے زمانے کے سب سے بڑے نقاد اور افسانہ نگار قرار پائے۔ باریک بینی اور ادب شناسی میں ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اردو ادب میں جو وراثت انہوں نے چھوڑی ہے وہ زمانہ طویل تک اردو کے بہی خواہوں کو سیراب کرتی رہے گی۔
واقعہ یہ ہے کہ ان کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ انہیں یکجا کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ فاروقی صاحب انتہائی با اصول، وقت کے پابند اور وسیع المطالعہ شخص تھے۔ مختلف موضوعات پر کتابیں حاصل کرنا، انھیں پڑھنا اور جو کچھ پڑھا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا ان کی فطرت ثانیہ رہی۔
ڈاک خانہ کی شاندار ملازمت، شب خون کی اشاعت، اندرون وطن اور بیرون وطن کے اسفار نیز ان کی کتابوں، تقریروں، علمی وادبی لکچرز اور عظیم شخصیتوں سے میل جول کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ قریبی اعزہ سے لے کر دور دراز رہنے والے صاحبانِ ذوق بھی ان کے مداح اور قصیدہ خواں ہیں۔