یادو نے کہا کورونا آفت لاک ڈاؤن کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر کے 85 فیصدی اور غیر منظم شعبے کے 93 فیصدی مزدوروں کی زندگی بحران میں ہے۔حالت یہاں تک خراب ہوچکی ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح 23فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے اس تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتاہے۔ مختلف ریاستوں میں کام کرنے والے مزدور لاکھوں کی تعداد میں اپنے گاؤں کی طرف نقل مکان کرنے کو مجبور ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے نافذ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دو ہفتوں میں پانچ کروڑ لوگوں کے بے روزگار ہو جانے کی اطلاع تشویشناک ہے۔ ان اعدادوشمار کا جائزہ لے کر حکومت کو بے روزگاری سے متاثرہ کنبوں کی مدد کے لئے روڈ میپ تیار کرنا چاہئے ورنہ فاقہ کشی سے پیدا ہونے والے حالات کافی خطر ناک ہوسکتے ہیں۔
سب کی روزی، روٹی، دوائی کا معقول انتظام ہو ورنہ لاک ڈاؤن کے بعد صورتحال خراب ہوسکتیہے۔ بے روزگار نوجوانوں کو ایک یا دو ہزار کی ماہناہ مدد ناکافی ہے۔
سابق وزیر اعلی نے کہا کہ وارانسی میں لاک ڈاؤن میں پھنسے پوروانچل کے 4لاکھ 30 ہزار بنکر کنبوں کے سامنے کھانے کا بحران ہے۔ ان بنکر کنبوں کے کاروبار بند ہیں۔ آمدنی نہ ہونے سے بے روزگار مناسب شرح پر اشیاء خوردنی، سبزی، دوائیں خرید نہیں پا رہے ہیں۔ ان کے لئے فوری راحت پیکج کا اعلان کرنا چاہئے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے پوروانچل ایکسپریس وے کی تعمیراتی کام میں لگے مزدور ویدھ کھیڑا میں پھنسے ہوئے ہیں۔ نہ ان کے پاس راشن بچا ہے اور نہ ہی پیسہ ہے۔ وہ 112 نمبر کی خدمت لینے میں بھی ڈر رہے ہیں۔ ان کے حالات کا نوٹس لے کر مدد پہنچانی چاہئے۔
ایس پی روزگار یا بے روزگاری بھتہ کے لئے جدوجہد کرتی رہی ہے۔ سماج وادی سرکار بننے پر بے روزگار بھتہ دینےکا پروگرام بھی نافذ کیا گیا تھا۔ امریکہ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں بے روزگاری بھتہ دئیے جانے کا نظم ہے۔جب تک نوجوانوں کو کوئی کاروبار نہیں مل جاتا ہے۔ نوکری۔ روزگار نہیں مل جاتی ہے۔ تب تک ریاستی حکومت کو زندگی گذارنے کے لئے مناسب بے روزگاری بھتہ دینے کا نظم کرنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کے خلاف لڑائی میں پورا ملک متحد ہے۔ اس سے بچاؤ کے احتیاط برتنے کی سبھی سے توقع کی جاتی ہے۔ لیکن اس وبا کے حملے کے وقت غریبوں ، مزدوروں اور سماج کے کمزور طبقے کی اندیکھی نہیں ہونی چاہئے۔