لکھنؤ: یکم نومبر 2023 کو بنارس ہندو یونیورسٹی کے آئی آئی ٹی شعبہ کی بی ٹیک کی طالبہ کے ساتھ رات 1:30 بجے تین نوجوانوں نے گینگ ریپ کیا تھا۔ اتنا ہی نہیں بندوق کی نوک پر طالبہ کو برہنہ کرکے ویڈیو بھی بنائی گئی۔ اس معاملہ کے بعد کئی دنوں تک بنارس ہندو یونیورسٹی کے کیمپس میں طلبہ و طالبات نے احتجاجی مظاہرے کیے۔ کیس درج کرنے کے 60 دن بعد پولیس نے تینوں ملزموں کو گرفتار کرلیا ہے۔ ان میں سے ایک کا نام کنال پانڈے ہے، جو بی جے پی آئی ٹی سیل مہانگر کا کوآرڈینیٹر ہے۔ دوسرا سکچھم پٹیل بی جے پی آئی ٹی سیل کا معاون کوآرڈینیٹر ہے۔ جب کہ تیسرے ملزم کی شناخت آنند عرف ابھیشیک چوہان کے طور پر ہوئی ہے۔ جو بی جے پی آئی ٹی سیل ٹیم کا رکن ہے۔ ان تینوں کا وزیر اعظم نریندر مودی بے جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا و اسمرتی ایرانی اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ فوٹو سماجی رابطہ کی سائٹ پر تیزی سے وائرل ہورہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
آگرہ گینگ ریپ: لڑکی چیختی رہی، معافی مانگتی رہی، درندے گھسیٹتے رہے، ویڈیو وائرل
سماجی رابطہ سائٹ پر اس واقعہ کی شدید مذمت کی جارہی ہے۔ ساتھ ہی ان ملزمان پر سخت کارروائی کرنے کا مسلسل مطالبہ کیا جارہا ہے۔ 31 دسمبر کو ان تینوں ملزمان کو سخت سکیورٹی کے ساتھ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ جس کے بعد 14 دن کے ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے۔ درج ایف آئی آر کے مطابق طالبہ نے بیان دیا تھا کہ میں ایک نومبر کی رات ایک بج کر 30 منٹ پر اپنے ہاسٹل سے کسی ضروری کام کے لیے باہر نکلی۔ کیمپس کے سمتیا چوراہے کے پاس مجھے میرا دوست ملا۔ ہم دونوں ساتھ میں جا رہے تھے کہ راستے میں کرمن بابا مندر سے قریب 300 میٹر دور پیچھے سے ایک بلٹ بائیک آئی جس پر تین لڑکے سوار تھے۔ ان لوگوں نے بائیک کھڑی کر کے مجھے اور میرے دوست کو روک لیا۔
لڑکی نے بتایا کہ اس کے بعد ان لوگوں نے میرے دوست کو الگ کر دیا اور میرا منہ دبا کر مجھے ایک کونے میں لے گئے۔ وہاں پہلے مجھے کِس کیا اس کے بعد برہنہ کیا اور میرا ویڈیو بنایا اور فوٹو کھینچی۔ میں جب بچاؤ کے لیے چلائی تو مجھے مارنے کی دھمکی دی۔ قریب 10 /15 منٹ تک مجھے اپنے قبضے میں رکھا اور پھر چھوڑ دیا۔ میں اپنے ہاسٹل کی جانب بھاگی تو پیچھے سے بائیک کی آواز آنے لگی۔ خوف کی وجہ سے ایک پروفیسر کی رہائش گاہ میں گھس گئی۔ وہاں پر 20 منٹ تک رکی اور پروفیسر کو آواز دی۔ پروفیسر نے مجھے گیٹ تک چھوڑے۔ اس کے بعد پارلیمنٹ سکیورٹی کمیٹی کے راہل راٹھور نے مجھے آئی آئی ٹی بی ایچ یو پیٹرولنگ گارڈ کے پاس لے کر پہنچے۔ جہاں سے میں اپنے ہاسٹل تک محفوظ پہنچ گئی۔ تینوں ملزم میں سے ایک موٹا دوسرا پتلا اور تیسرا متوسط قد کا تھا'۔
اس واردات کے آٹھویں دن متاثرہ کے بیان کے مطابق پولیس نے گینگ ریپ کی دفعہ یعنی 376 ڈی بڑھائی تھی۔ شروعاتی ایف آئی آر کے مطابق بلٹ سے آئے تین نوجوالوں نے گن پوائنٹ پر طالبہ کے کپڑے اور ویڈیو بنایا تب دفعہ 354 بی یعنی کپڑے اتروانا اور 509 دھمکی دینا کی دفعہ کی تحت کیس درج ہوا تھا۔ دو نومبر کی صبح طالبہ نے بنارس کے لنکا تھانے میں شکایت درج کرنے کے لیے درخواست دی تھی جیسے ہی یہ معاملہ طلبہ و طالبات کو معلوم ہوا تو اس کے بعد قریب 2500 طلبہ و طالبات نے راجپوتانہ ہاسٹل کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد یہ احتجاجی مظاہرہ مزید بڑھتا گیا اور یونیورسٹی کے کیمپس میں بیشتر طلبہ و طالبات نے مظاہرے میں شرکت کی۔ جس میں ریسرچ، لیب اور کلاسز بھی بند ہو گئے۔ یونیورسٹی کیمپس میں انٹرنیٹ کی سروس بھی بند کر دی گئی تھی، 11 گھنٹے احتجاجی مظاہرے کے بعد پولیس اور آئی ٹی بی ایچ یو کے ڈائریکٹر نے طلبا کے ساتھ ایک میٹنگ کی تھی اور انہیں یقین دلایا تھا کہ سات دن میں سبھی ملزموں کو گرفتار کرکے جیل بھیجیں گے۔
اسی دوران چار نومبر کو آئی آئی ٹی بی ایچ یو میں چھیڑ چھاڑ کا دوسرا معاملہ سامنے آیا۔ ایک طالبہ نے بتایا کہ 31 اکتوبر کی رات اسی جگہ پر چھیڑ چھاڑ ہوئی تھی۔ حالانکہ طالبہ نے شکایت نہیں کی تھی۔ وارانسی پولیس کے پاس ان ملزمان کے خلاف کئی اہم ثبوت ہیں۔ پہلا تو سی سی ٹی وی کیمرہ جن میں ان تینوں ملزمان کی تصویر قید ہو گئی ہے۔ دوسرا طالبہ کا میڈیکل اور بیان، تیسرا طالبہ کا دوست اور سکیورٹی گارڈ گواہ ہیں اور ان کا موبائل فون اور واٹس ایپ چیٹ کال ریکارڈنگ بھی پولیس کے پاس ہے۔
ان ملزمان نے واردات انجام دینے کے بعد کچھ دن تک تو بنارس ہی میں رہے لیکن کچھ دن بعد مدھیہ پردیش انتخابات میں اشتہاری مہم میں حصہ لینے چلے گئے۔ مدھیہ پردیش کے ریوا حلقہ اسمبلی سے وہاں کے امیدوار کی اشتہاری مہم میں شرکت کی اور سوشل میڈیا پر بھی متحرک رہے۔ پولیس نے ان کی لوکیشن ٹریس کر کے مدھیہ پردیش بھی پہنچی تھی لیکن چونکہ معاملہ ہائی پروفائل تھا۔ اس لیے فوری طور پر گرفتار نہیں کیا۔ پورے ثبوت اکٹھا کیے۔ اس کے بعد 30 دسمبر کو گرفتاری ہوئی۔