گزشتہ 8 جولائی کو اردو ادب کے معروف تنقید نگار پروفیسر ابوالکلام قاسمی کا انتقال ہوگیا۔ پروفیسر ابوالکلام قاسمی کی علمی، ادبی، صحافتی اور تنقیدی پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے بنارس ہندو یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر پروفیسر آفتاب احمد نے کہا کہ 'موجودہ عہد میں اردو ادب کے تنقیدی میدان میں سب سے عظیم شخصیت کا نام پروفیسر ابوالکلام قاسمی تھا جن کے انتقال سے علمی و ادبی حلقہ میں سخت رنج و ملال ہے۔'
پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'مرحوم پروفیسر ابو الکلام قاسمی اردو ادب میں ممتاز نقاد کی حیثیت رکھتے تھے۔ تنقید کے میدان میں ان کی سب سے اہم خاصیت یہ تھی کہ وہ جو بھی گفتگو کرتے تھے مدلل کرتے تھے بغیر دلیل کے گفتگو نہیں کرتے تھے۔ مثلاً انہوں نے اپنی کتاب 'معاصر تنقیدی رویے' میں جو گفتگو کی ہے وہ ہمعصر نقاد پر مدلل گفتگو ہے۔
پروفیسر ابوالکلام قاسمی مشرقی شعریات پر اپنی تحریروں کے لیے منفرد شناخت کے حامل ہیں۔ ان کی سب سے مقبول کتاب 'مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت' ہے۔ پروفیسر کو اردو ،عربی، فارسی اور انگریزی پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مشرقی علوم کے ساتھ مغربی علوم پر بھی بھرپور توجہ دی اور اس پر تنقیدی و تحقیقی کی حیثیت سے مدلّل گفتگو کی ہے۔
اردو زبان میں انگریزی سے ترجمہ کردہ 'ناول کا فن پارہ' کافی مقبول ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اردو زبان میں کامیاب ناولز کی کتابیں کمیاب تھیں۔
پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے صحافت کے میدان میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ طویل مدت تک وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شائع ہونے والا معروف رسالہ تہذیب الاخلاق کے مدیر رہے۔ اس کے بعد علی گڑھ کا معروف رسالہ فکر و نظر، امروز علی گڑھ، لفظ دو ماہی جیسے متعدد رسائل وجرائد میں صحافت کے گل بوٹے دکھائے۔