اس موقع پر 'لکھنؤ کی تہذیبی روایات اور قصہ گوئی' کے عنوان سے مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ قصہ گوئی ایک ایسا فن ہے جس میں قصے کے اہمیت اور دلچسپی سے زیادہ قصہ گو کا انداز بیان اور تمثیل اہم ہوتی ہے۔ اپنے قصے کے بیان سے سامعین کو ناظرین میں تبدیل کر دینا قصہ گو کی بنیادی خاصیت ہوتی ہے۔
جوقصہ گو جس قدر مربوط و مضبوط طریقہ سے قصہ پیش کرتا ہے اس کی شہرت و مقبولیت میں اُسی قدر اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
جب قلمی و تحریری ادب وجود میں نہیں آیا تھا تب سے یہ بیانیہ ادب قصہ گوئی کی شکل میں انسانی معاشرہ کو محظوظ کرتا آیا ہے۔
تاہم عدیم الفرصتی کے دور میں یہ فن معدوم ہوتا جارہا ہے، لیکن دور جدید کے شائقین ادب نے اسے نئی جلا بخشی ہے۔ اس مایوسی کے اندھیرے میں اس طرح کے پروگرامز کو امید کی کرن کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
مہمان خصوصی کے حیثیت سے سینیئر صحافی احمد ابراہیم علوی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران کہا کہ شیوخ لکھنؤ کی ادبی، تہذیبی، ثقافتی اور لسانی روایات بہت قدیم ہے۔
دور جدید میں قصہ گو کی بڑی اہمیت ہے۔ کیونکہ اسی کے ذریعے تمام پرانی کہانیوں کو قلم بند کیا گیا ہے۔