اردو

urdu

قصہ گوئی کا فن آج بھی ضروری

ادبی تنظیم 'بزم اردو' کے تحت اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں 'تعلیم نسواں انٹرکالج' میں ایک ادبی محفل کا اہتمام کیا گیا۔

By

Published : Sep 22, 2019, 7:11 PM IST

Published : Sep 22, 2019, 7:11 PM IST

Updated : Oct 1, 2019, 2:57 PM IST

'قصہ گوئی آج بھی ہماری ضرورت ہے'

اس موقع پر 'لکھنؤ کی تہذیبی روایات اور قصہ گوئی' کے عنوان سے مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ قصہ گوئی ایک ایسا فن ہے جس میں قصے کے اہمیت اور دلچسپی سے زیادہ قصہ گو کا انداز بیان اور تمثیل اہم ہوتی ہے۔ اپنے قصے کے بیان سے سامعین کو ناظرین میں تبدیل کر دینا قصہ گو کی بنیادی خاصیت ہوتی ہے۔

جوقصہ گو جس قدر مربوط و مضبوط طریقہ سے قصہ پیش کرتا ہے اس کی شہرت و مقبولیت میں اُسی قدر اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

'قصہ گوئی آج بھی ہماری ضرورت ہے'

جب قلمی و تحریری ادب وجود میں نہیں آیا تھا تب سے یہ بیانیہ ادب قصہ گوئی کی شکل میں انسانی معاشرہ کو محظوظ کرتا آیا ہے۔

تاہم عدیم الفرصتی کے دور میں یہ فن معدوم ہوتا جارہا ہے، لیکن دور جدید کے شائقین ادب نے اسے نئی جلا بخشی ہے۔ اس مایوسی کے اندھیرے میں اس طرح کے پروگرامز کو امید کی کرن کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

مہمان خصوصی کے حیثیت سے سینیئر صحافی احمد ابراہیم علوی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران کہا کہ شیوخ لکھنؤ کی ادبی، تہذیبی، ثقافتی اور لسانی روایات بہت قدیم ہے۔

دور جدید میں قصہ گو کی بڑی اہمیت ہے۔ کیونکہ اسی کے ذریعے تمام پرانی کہانیوں کو قلم بند کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کے اعلیٰ اقدار اسی قصہ گوئی سے ہی محفوظ رہیں گے۔ کیونکہ اب کتابوں کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔

ان کا مزید کہناہے کہ آج جو بھی ٹی وی پر پروگرامز نشر ہوتے ہیں وہ بھی ایک طرح کا قصہ ہی بیان کرتے ہیں۔ محض اندازِ بیان میں تبدیلی آئی ہے۔

مقامی صحافی محمد غفران نسیم نے قصہ گوئی کی تاریخ ،قصہ اور قصہ گوکے ربط پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

انہوں نے بتایا کی ایک مرتبہ حضرت نظام الدین اولیاء کی طبیعت خراب ہو گئی، تبھی اُنہیں امیر خسرو نے چند کہانیاں سنائیں، اس کے بعد حضرت کو شفاء حاصل ہوئی۔

لکھنو میں واقع 'تعلیم نسواں انٹرکالج' کی پرنسپل تبسم قدوائی علیگ نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بتایا کہ اب لوگ سوشل میڈیا کے دور میں کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ موجودہ دور کے مشاعرے محض نمائش کی حد تک محدود ہو گئے ہیں۔ لہذا ہمیں قصہ گوئی کو دوبارہ زندہ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

اس موقع پر بڑی تعداد میں خواتین نے بھی شرکت کی۔

Last Updated : Oct 1, 2019, 2:57 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details